منگلورو ایئر پورٹ ٹھیکیداری پرلگی ہیں نجی کمپنیوں کی نظریں
منگلورو19؍فروری (ایس او نیوز)مرکزی حکومت نے ہوئی اڈوں کو ٹھیکے پر دینے کی پہل جو کی ہے ، اس میں منگلورو انٹر نیشنل ایئر پورٹ بھی شامل ہے۔ وزارت ہوابازی کے اس اقدام کے بعد پتہ چلا ہے کہ منگلورو ایئر پورٹ کو ٹھیکے پر لینے کے لئے ٹیکنیکل بِڈ میں تین کمپنیوں نے دلچسپی دکھائی ہے۔
موصولہ رپورٹ کے مطابق اس دوڑ میں ہوئی اڈوں کو نجی ٹھیکے پر لینے والی سب سے بڑی کمپنی جی ایم آر گروپ، آدانی گروپ اور کوچین انٹرنیشنل ایئر پورٹ پرائیویٹ لمیٹیڈ(سی آئی اے ایل)نامی کمپنیاں شامل ہیں۔ایئر پورٹ اتھاریٹی آف انڈیا نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ (پی پی پی) کے طرز پرملک کے جن ہوائی اڈوں کو ٹھیکے پر دینے کے لئے ٹینڈر طلب کیا ہے ان میں لکھنؤ، جے پور، احمد آباد، گوہاٹی، منگلورو اور تھیرو اننت پورم شامل ہیں۔ اسی کے مطابق ٹیکنیکل بِڈ پوری ہوجاتی ہے تو پھر 25فروری کو فنانشیل بِڈ کا عمل پورا ہوگا اور 28فروری کوٹھیکہ پانے والی کمپنی کا نام پتہ چل جائے گا۔
معلوم ہوا ہے کہ ٹھیکہ پانے والی کمپنی کو یکم جولائی سے اپنا کام شروع کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ مگر منگلورو ہوائی اڈے کا یہ ٹھیکہ مکمل طو ر پر نجی ٹھیکہ ہوگا یا پی پی پی کے طرز پر ہی ہوگا ابھی اس بات کا خلاصہ نہیں ہوا ہے ۔منگلورو ایئر پورٹ اتھاریٹی کی طرف سے صرف یہ بات بتائی جارہی ہے کہ بولی لگانے والے آخری بولی لگانے کے مرحلے میں پہنچ گئے ہیں۔فنانشیل بِڈ لگنے کے بعد ہی ٹھیکے کی اصل نوعیت صاف ہوجائے گی۔
منگلورو ہوائی اڈے پر کچھ ایسے مسائل ہیں کہ اس کی ترقی کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ مثلاً جیٹ ایئر ویز نے اس ہوائی اڈے سے اپنے طیاروں کی اڑان بڑی تعداد میں کم کردی ہے۔ دوسری طرف انٹرنیشنل ایئر پورٹ کہلانے کے باوجود یہاں سے دنیا کے بہت سے ممالک کے لئے راست پروازیں دستیاب نہیں ہیں۔ان حالات کودیکھتے ہوئے سمجھا جارہاتھا کہ ٹینڈر کے ذریعے بولی لگانے والی کمپنیاں اس ایئرپورٹ میں زیادہ دلچسپی نہیں لیں گی۔ مگر ایئر پورٹ اتھاریٹی کے افسران اس بات پر خوش ہیں کہ جو بولیاں لگائی جارہی ہیں وہ توقعات سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔
ایک اور بات یہ بھی معلوم ہوئی ہے کہ بیرونی ملک کی کمپنیاں بھی ٹھیکے داری میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک کمپنی اے ایم پی گروپ ہے جس کا دفتر آسٹریلیا کے سڈنی شہر میں واقع ہے۔ پتہ چلا ہے کہ اس کمپنی نے بھی بولی لگانے کے لئے کاغذات داخل کیے ہیں۔لیکن ابھی اس بات کی دفتری طور پر تصدیق نہیں ہوئی ہے۔