وقف املاک کا انتظام و انصرام مسلمانوں کے ہاتھوں میں دینے اسلامک فقہ اکیڈمی کا مطالبہ

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 27th August 2016, 11:12 PM | ملکی خبریں |

نئی دہلی 27 ؍اگست (ایس او نیوز؍ایجنسی) یہاں اسلامک فقہ اکیڈمی کے زیر اہتمام دو روزہ بین الاقوامی سیمینا ر’ہندوستان میں اوقاف: چیلنجز اور مشکلات‘ کے موضوع پرمنعقد ہوا جس میں پوری شدت کے ساتھ یہ مطالبہ کیا گیا کہ اوقافی جائیدادوں کا انتظام اور انصرام مکمل طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں میں دیا جائے نیز وقف جائدادوں پر ناجائز قابضین کو ہٹانے سے متعلق وقف انخلاء بل کو فوری طور پر منظورکیا جائے۔ سرکردہ علماء فقہاء، ماہرین اور دانشوروں نے کہا کہ ہندوستان میں وقف جائیدادوں کی تعداد کئی مسلم ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن ا ن سے اب تک خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا ہے کیونکہ ان میں سے بیشتراملاک مرکزی اور صوبائی سرکاروں اور مختلف افراد اور اداروں کے ناجائز تصرف میں ہیں ۔

جمعیتہ علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اپنی تنظیم کی آزادی کے بعد سے اوقاف کی حفاظت کے لئے کاوشوں اور جد وجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اوقاف ہمارے باپ دادا کی ملکیت ہے ، اور ہمار ا مطالبہ بر حق ہے کہ اوقاف پر مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور ان کے اداروں کے ناجائز قبضے ختم کئے جائیں ۔ موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں مولانا مدنی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ حالات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اور پورے حوصلے کے ساتھ وقف املاک کی بازیابی کے لئے جدو جہد جاری رکھنی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت سے کوئی توقع نہیں کہ وہ وقف کے معاملہ کو نیک نیتی سے حل کرے گی ۔ مولانا مدنی نے اس بات پر زور دیا کہ مختلف ریاستی حکومتوں پر عوامی سطح سے دباؤ بنایا جائے تاکہ وہ وقف جائدادیں خالی کرنے پر مجبور ہوں ۔انہوں نے خبردار کیا کہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر وقف املاک کو نقصان پہنچانے کی سازشیں ہوتی رہی ہیں اس لئے اوقاف کے تحفظ کا مسئلہ مستقل جدو جہد اور توجہ کا متقاضی ہے۔

اس سے قبل مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، جنرل سیکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمانوں کو ان کے اوقاف مل جائیں تو وہ ایک خود مکتفی امت کی حیثیت سے ترقی کے میدان میں پیش رفت کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے اس اہم نکتہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ وقف کے انتظام میں مسلمانوں کا عمل دخل کم ہے۔ وقف بورڈوں کا ڈھانچہ حکومت نے کچھ اس طرح بنایا ہے کہ اس میں مسلمانوں کے منتخب نمائندے کم اور حکومت کے نامزد ارکان زیادہ ہوتے ہیں ۔ نئے ترمیمی وقف قانون کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے مولانا رحمانی نے کہا کہ عوامی مقاصد کے قانون کا اطلاق وقف جائیدادوں پر نہیں ہے، وقف مقدمات کے فیصلہ کے لئے ٹریبیونل کی مدت کا کوئی ذکر نہیں ہے اسی طرح وقف جائداد کو تحویل میں لینے کی صورت میں د و گنا یا چار گنا معاوضہ دینے کا کوئی ذکر نہیں ہے، چنانچہ وقف کا قانون ایسا ہونا چاہئے جو مسلمانوں کی خواہشات کا آئینہ دار ہو ۔ ہندوستان میں وقف کی تاریخ کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محمد بن قاسم کی 711میں آمد کے بعد سے ہندوستان میں وقف کا سلسلہ شروع ہوا ۔ انہوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ مطلقہ خواتین کے لئے وقف بورڈ سے وظائف مقرر کئے جائیں ۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر اورملی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفر الا سلام خان نے کہا کہ مسلمانوں کے مسائل میں وقف کا مسئلہ سر فہرست ہے ۔ انگریزوں کی آمد کے بعد سے یہاں وقف جائدادوں پر  قبضہ کا سلسلہ شروع ہوا اور آج 60تا 70 فی صد وقف املاک حکومت کے قبضے میں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی نیت ہمیشہ سے خراب رہی ۔ ورنہ وقف  کا معاملہ موجودہ وقف قانون میں شامل کردیا جاتا۔ اور اسکے الگ سے قانون بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ اب اس کا بل وزارتی کونسل کے پاس ہے۔ انہوں نے زورد دیا کہ مسلمانوں کو اوقاف کا انتظام اپنے طور پر چلانے کے مطالبہ کے لئے ایک تحریک شروع کرنی چاہیے ۔ سکھوں کی مثال پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گرودوراہ پر بندھک کمیٹی اپنے مذہبی مقامات اور املاک کی خود دیکھ بھال کرتی ہے جس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ۔ یہی مطالبہ مسلمانوں کو بھی کرنا چاہیے ۔

سابق مرکزی وزیر کے رحمن خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ وقف املاک کا تحفظ اسی صورت میں ممکن ہے جب قوم کا ہر فرد اس کے تحفظ میں اپنی ذاتی جائداد سمجھ کر دلچسپی لے ۔ وہ کسی ناگزیر وجہ سے سیمینار میں حاضر نہیں ہوسکے ۔ سیمینار میں کئی ملکوں کے ماہرین شرکت کر رہے ہیں ۔ جدہ میں واقع اسلامک ریسرچ ٹرینگ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر عبیداللہ نے دنیا کے مختلف ملکوں میں وقف کی ترقی کے تجربات سے روشناس کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے مسلمان ان تجربات بالخصوص سنگاپور اور ملائشیا کے تجربوں سے فائد ہ اٹھا سکتے ہیں ۔ کویت کے امانت عامہ اوقاف کی نمائندہ محترمہ امل حسین الدلال اور بحرین کے اسکالر ڈاکٹر حبیب الناملیتی نے بھی اس موقع پر اظہار خیال کیا اور نظامت کے فرائض فقہ اکیڈمی کے علمی امور کے سیکریٹری مولانا عتیق احمد بستوی نے انجام دئے ۔

اس دوروزہ سیمینار میں وقف سے متعلق چھ اہم موضوعات پر تبادلہ خیال ہوگا۔ ان میں قابل ذکر ہیں وقف بورڈوں کے مسائل و حالات ، ، مقننہ، عدلیہ اور اوقاف اور اوقاف کی ہندوستانی تاریخ وغیرہ۔ خیال رہے کہ فقہ اکیڈمی کی سرگرمیوں میں وقف بھی ایک اہم موضوع ہے اور اس نے اب تک اس پر چار بین الاقوامی سیمینا ر ملک کے مختلف شہروں میں منعقد کئے ہیں۔

 

 

ایک نظر اس پر بھی

منیش سسودیا کی عدالتی تحویل میں 26 اپریل تک کی توسیع

دہلی کی ایک عدالت نے جمعرات کو شراب پالیسی کے مبینہ گھوٹالہ سے متعلق منی لانڈرنگ معاملہ میں عآپ کے لیڈر اور سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کی عدالت تحویل میں 26 اپریل تک توسیع کر دی۔ سسودیا کو عدالتی تحویل ختم ہونے پر راؤز ایوینیو کورٹ میں جج کاویری باویجا کے روبرو پیش کیا ...

وزیراعظم کا مقصد ریزرویشن ختم کرنا ہے: پرینکا گاندھی

کانگریس جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے یہاں پارٹی کے امیدوار عمران مسعود کے حق میں بدھ کو انتخابی روڈ شوکرتے ہوئے بی جے پی کو جم کر نشانہ بنایا۔ بی جے پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے انہوں نے بدھ کو کہا کہ آئین تبدیل کرنے کی بات کرنے والے حقیقت میں ریزرویشن ختم کرنا چاہتے ...

مودی ہمیشہ ای وی ایم کے ذریعہ کامیاب ہوتے ہیں،تلنگانہ وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی کا سنسنی خیز تبصرہ

تلنگانہ کے وزیراعلیٰ  ریونت ریڈی نے سنسنی خیز تبصرہ کرتے ہوئے کہا  ہے کہ ہر مرتبہ مودی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں( ای وی ایمس )کے ذریعہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اور جب تک ای وی ایم کےذریعے انتخابات  کا سلسلہ بند نہیں کیا جائے گا،  بی جے پی نہیں ہار سکتی۔

لوک سبھا انتخابات کے چوتھے مرحلہ کے لئے گزٹ نوٹیفکیشن جاری

الیکشن کمیشن نے لوک سبھا انتخابات 2024 کے چوتھے مرحلہ کے لئے گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ کمیشن کے مطابق انتخابات کے چوتھے مرحلہ میں 10 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی 96 پارلیمانی سیٹوں پر انتخابات ہوں گے۔ اس مرحلہ کی تمام 96 سیٹوں پر 13 مئی کو ووٹنگ ہوگی۔ نوٹیفکیشن جاری ...

ملک کے مختلف حصوں میں جھلسا دینے والی گرمی، گزشتہ برس کے مقابلے اس سال گرمی زیادہ

   ملک کے مختلف حصوں میں گرمی کی شدت میں روزبروزاضافہ ہوتاجارہا ہے۔ بدھ کوملک کے مختلف حصوں میں شدید گرمی رہی ۔ اس دوران قومی محکمہ موسمیات کا کہنا  تھا کہ ملک کے کچھ حصوںمیں ایک ہفتے تک گرم لہریں چلیں گی ۔  بدھ کو د ن بھر ملک کی مختلف ریاستوں میں شدید گرم  لہر چلتی رہی  جبکہ ...