ممتا بنرجی کی سرکار نے سی اے جی کو ریاست کا آڈٹ کرنے سے روکا
کولکاتہ،20؍اگست (ایس او نیوز؍ آئی این ایس انڈیا ) مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی سرکار نے ایک بار پھر مرکز سے دو دو ہاتھ کرنے کے موڈ میں ہیں۔کبھی فوجیوں کو ریاست میں دیکھ کر وہ مرکز پر اعتراض کرتی ہیں تو کبھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے احکامات پر سوال کھڑی کرتی ہیں ۔اب پورے ملک کی اقتصادی خرچ کا حساب کتاب کرنے والے کنٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا(سی اے جی) کو مغربی بنگال سرکار نے ریاست کے قانون و انتظام کے خرچ سے متعلق اور دیگر اشیا کا آڈٹ کرنے سے روک دیا ہے ۔اسے لے کرمرکز اور ریاستی سرکارکے درمیان ایک بار پھر ٹھن گئی ہے ۔
سی اے جی کے اکاؤنٹنٹ جنرل نمیتا پرساد نے ریاست کے داخلہ سکریٹری اتری بھٹا چاریہ کو خط لکھ کر یہ اطلاع دی ہے کہ سی اے جی مغربی بنگال کی پبلک آرڈر کا آڈٹ کرنا چاہتا ہے ۔اسکے تحت قانون و انتظام،جرائم کنٹرول،ریاست میں اسلحوں کے لائسنس،قانون و انتظام سے جڑے انفرا اسٹرکچر وغیرہ کی تفصیلات لے کر اس کا آڈٹ کیاجائے گا۔ مطلب ریاستی سراکر نے اس کے لئے کتنی رقم لی۔کتنی رقم الاٹ کی ہے کتنا خرچ کیا گیا ہے اور کہاں کہاں کس کس مد میں کس طرح سے رقم کا استعمال کیا گیا ہے ۔ان سب کا حساب سی اے جی کریگا۔پہلے تو ریاست کے محکمہ داخلہ نے اسے پوری طرح سے انکار کر دیا تھا لیکن اب ایک بار پھر سی اے جی کی جانب سے اس کی تجویز آنے کے بعد ریاست اور مرکز اس معاملے میں آمنے سامنے آ گئے ہیں ۔
سی اے جی کی جانب سے اسٹیٹ سکریٹری کو بتایا گیا ہے کہ راجستھان ،کیرل،آسام اور منی پور میں پبلک آرڈر سے متعلق آڈٹ کیاجا رہا ہے ۔مغربی بنگال سرکار آئین کے دائرے سے باہر نہیں ہے ۔سی اے جی نے واضح کیا ہے کہ مغربی بنگال کی ڈھائی ہزار کلو میٹر کی سر حد بین الاقوامی سرحد پر لگی ہے ۔ایسے میں یہاں قانون و انتظام پر عمل کس طرح سے کیا جا رہا ہے اس کی جانچ بے حد ضروری ہے ۔اس سے پورے ملک کی سیکورٹی منسلک ہے ۔
ھالانکہ ریاست کے محکمہ داخلہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ ریاست کے قانون و انتظام میں سی اے جی کو کسی حال میں نہیں داخل ہونے دیا جائے گا ۔افسر نے کہا کہ قانون و انتظام سے متعلق خفیہ اور حساس موضوع کو سی اے جی سے شیئر کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا ہے ۔اس پر سی اے جی کے ایک سینئرافسر نے بتایا کہ سی اے جی ملک کے جوہری پروگراموں اور فوج کے جہازوں کی خرید و فروخت سے متعلق بڑے معاملوں کا بھی آڈٹ کرتا ہے تو کیامغربی بنگال سرکار کا قانون و انتظام اس سے بھی اونچا ہے ۔
سی اے جی نے واضح کیا ہے کہ اگر ریاستی سرکار اس رپ آئین کے دائرے میں مدد نہیں کرتی ہے تو اسکے خلاف قانونی قدم اٹھایا جائے گا۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے سابق جج اشوک گانگولی نے بتایاکہ آئین کے دفعہ 148,149,150,151کے تحت ہر طرح کے سرکاری اداروں کے خرچ کا آڈٹ سی اے جی کر سکتا ہے۔کسی بھی طرح کے ایسے ادارے جسے سرکاری طور پر مدد دی جاتی ہے سی اے جی کے دائرے میں آتی ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ قانون و انتظام بھلے ہی ریاستی کی سرکار کی ذمہ داری ہی لیکن یہ پوری طرح سے ریاستی سرکار کی نہیں ہے ۔پولس کی جدید کاری کیلئے مرکز رقم دیتا ہے ۔ریاست میں آئی پی ایس افسروں کی تعیناتی صدر کے ذریعہ کی جاتی ہے ۔اس لئے ان سے متعلق تمام معلومات کو سی اے جی سے شیئر کرنا ضروری ہے ۔اگر ریاستی کے سکریٹریٹ سے سی اے جی کو آڈٹ کی اجازت دینے سے انکار کیا جا رہا ہے تو یہ آئین کو چیلنج دینے جیسا ہے ۔