مدھیہ پردیش: انتخابی موسم میں بابو لال گور نے پھر چھیڑا ’کانگریس راگ‘، بی جے پی پریشان
بھوپال، 20 فروری(ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا)گزشتہ طویل عرصے سے حاشیے پر چلے گئے مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلی بابو لال گور اپنے بیباک انداز کے لئے جانے جاتے ہیں، خاص طور پر انتخابی موسم میں۔گزشتہ کچھ مہینوں سے بابو لال کایہی بیباک بیان ان کی اپنی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو بار بار سوچنے پر بھی مجبور کر رہی ہے۔2 ماہ پہلے اسمبلی انتخابات کے دوران ان کے بیان پارٹی کو کسی نہ کسی طرح پریشان کرتی رہی تو اب لوک سبھا انتخابات کے وقت ایک بار پھر گور پارٹی کو پریشان کرنے کی صورت حال میں آ چکے ہیں۔گزشتہ سال دسمبر میں ہوئے اسمبلی انتخابات سے پہلے جب سابق وزیر اعلی بابو لال گور کو لگا کہ اس بار ان ٹکٹ ملنا مشکل ہے تو انہوں نے پہلے تو اپنی بہو کو اپنا جانشین قرار دیتے ہوئے بھوپال کی گووندپورا اسمبلی سیٹ سے ٹکٹ کا مطالبہ رکھ دیا تھا اور وقتا فوقتا اپنی پارٹی کو بیانات سے یہ احساس کراتے رہے کہ گور خاندان کو ٹکٹ نہیں ملا تو بی جے پی کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔اب جب لوک سبھا انتخابات آنے والے ہیں تو بابو لال گور نے ایک بار پھر اپنے بیانات کے ذریعے کانگریس محبت دکھاتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر دباؤ بنانا شروع کر دیا ہے۔بابو لال گور نے منگل کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھوپال لوک سبھا سیٹ سے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کی پیشکش پر غور کر رہے ہیں۔کانگریس کے کئی لیڈر اور وزیر ان سے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کی پیشکشیں دے چکے ہیں۔اس سے پہلے بھی بابو لال گور نے جنوری کے مہینے میں یہ کہہ کر سنسنی پھیلا دی تھی کہ کانگریس کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ دگوجے سنگھ نے ان سے کھانے پر ملاقات کی تھی اور انہیں کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا آفر دیا تھا، اگرچہ گور نے یہ بھی کہا تھا کہ بی جے پی چاہے تو انہیں ٹکٹ دے سکتی ہے کیونکہ گزشتہ سال ہوئے کارکن پروگرام میں پی ایم مودی نے انہیں کہا تھا ’بابو لال گور، ایک بار اور‘۔مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ حکومت بننے کے بعد سے ہی بابو لال گور کے گھر پر کانگریس لیڈروں کی نقل و حرکت تیز ہے۔گزشتہ دو ماہ میں ہی بابو لال گور سے ان کے گھر پر ملنے والوں کی لسٹ میں دگ وجے سنگھ اور ان کے بیٹے جے وردھن سنگھ کے علاوہ جیتو پٹواری، عارف عقیل اور دیگر وزیر اور لیڈر شامل ہیں۔جے وردھن سنگھ ریاستی حکومت میں وزیر بھی ہیں۔