غیر مسلم لڑکوں سے مسلمان لڑکیوں کی شادیاں، لوجہاد کے معاملہ پر سنگھ پریوار کا واویلا مگر مسلم تنظیمیں خاموش؟
وجئے پورء6نومبر(ایس او نیوز؍ایجنسی)کیا مسلمان اور مسلمانوں کے مذہبی و سماجی تنظیمیں غفلت کی نیند سوئی ہوئی ہیں؟ اس طرح ایک اہم سوال یہاں اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ ریاست کرناٹک میں تعلیم یافتہ مسلم لڑکیوں کو غیر مسلم لڑکے گمراہ کر کے نہ صرف شادیاں کررہے ہیں بلکہ انہیں ہندو بنارہے ہیں ، جس کی تصدیق رجسٹرار آف میرجس کے دفتروں کے باہر نوٹس بورڈ پر ’’ شادی کے خواہشمند ‘‘ کے طور پر آسانی دیکھا بھی جاسکتا ہے اور پڑھ بھی سکتے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تک کئی ہندو لڑ کے مسلمانوں کی لڑکیوں کو گمراہ کر نے کے بعد اسپیشل میرج ایکٹ 1954کے دفعہ 15کے مطابق شادی کو باقدہ رجسٹریشن کرنے کیلئے رجسٹرار آف میرجس سے رجوع ہو کر قانوناً ازدواجی زندگی میں داخل ہوئے ہیں، جس میں گوپال کرشنا کی شادی تسنیم کے ساتھ اس طرح ترون شرما کی شادی ربینہ اختر کے ساتھ ،آنند کی شادی تخمینہ کے ساتھ ہونے کی اطلاع باقدہ بنگلورواور وجئے پور،رجسٹرارآف میرجس کے دفتر کے باہر چسپاں نوٹس بورڈ پر دیکھنے کو ملتی ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ اب تک جتنی بھی مسلم لڑکیوں کی شادیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ باقدہ رجسٹریشن کے ذریعہ ہوئی ہیں ان تمام غیر مسلم لڑکوں کا تعلق یا تو آر ایس ایس سے ہے یا آر ایس ایس کی ان لڑکوں کو حمایت حاصل ہے۔ معلوم یہ بھی ہوا ہے کہ اس طرح غیر مسلم لڑکوں کی جانب سے گمراہ ہوئی مسلم لڑکیوں کے والدین ان دونوں کافی پریشان ہیں جن کا کوئی پریشان حال نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح کے نہ گفتہ بہ حالات دیکھتے ہوئے ریاستی محکمہ اقلیتی بہبود کے سکریٹری اور ریاست سینئر آئی اے ایس افسر محمد محسن نے واٹس ایپ کے ذریعہ ریاست کے مسلمانوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تو بھی آج تک ریاست کی ایسی کوئی مسلم تنظیم ہو یا ادارہ نے اس معاملہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے، جبکہ بے شمار مسلمانوں کے ارادے اور دینی تنظیمیں ، جماعتیں اصلاح معاشرہ کے میدان میں سرگرم عمل ضرور ہیں آخر کیوں اب تک یہ لوگ خاموش ہیں؟۔ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے ریاست کرناٹک میں ملت کا ایک واحد سینئر آئی اے ایس خیر خواہ و ہمددر مسلم افسر اپنے سرکاری دائرہ کار سے اٹھ کر اس معاملہ کو لیکر فکر مندہے جس پر کارروائی کرنے والا تک کوئی دیکھا نہیں جارہا ہے، اس لئے ایسے واقعات کو فوراً روکنے کیلئے ایک لائحہ عمل کی سخت ضرورت ہے ورنہ کل ایک مسلم باپ اس کا شکار ہوا ہے تو آئندہ ہماری بھی باری آئینگی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بلی کے گردن میں گھنٹی کون باندھے گا؟ ۔ لوجہاد کے نا م پر مسلمانوں کو بدنام کرنے والا سنگھ پریوار بے معنی طور پر ایسے واقعات کو اچھالتا ہے تو ہماری تنظیمیں معاملات کا نوٹس کیوں نہیں لٹیں؟