مسلمان اپنی پارٹی بنائیں یا کسی ایک پارٹی کوووٹ دیں، کیا ہونی چاہئے حکمت عملی؟
نئی دہلی،16جولائی (ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا)ملک کی سیاست میں مسلمانوں کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ 1952کے پہلے لوک سبھا الیکشن میں صرف 11 مسلمان منتخب ہوکر پارلیمنٹ آئے، جس کے لئے 42 مسلم امیدوارمیدان میں تھے۔ حالانکہ 1980 میں انہیں سب سے زیادہ 49 سیٹیں ملیں، لیکن یہ نمبر بھی 291 مسلم امیدواروں کے الیکشن میں قسمت آزمانے کے بعد ملا تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر شکیل صمدانی کہتے ہیں "صرف 84۔1980کا ہی وہ دور تھا، جب مسلمان 49 اور 42 کے بڑے نمبر کے ساتھ لوک سبھا پہنچے تھے۔ اس کے بعد سے یہ نمبرنیچے گرتا چلا گیا۔ حالانکہ ان کی آبادی بڑھتی گئی۔
مسلمانوں کی نمائندگی کو لے معروف شاعر منوررانا کا ایک شعر ہے، جس میں مسلمانوں کی صورتحال، ان کے مقام اور ان کے رسوخ کی کم وبیش اس شعر میں بات آگئی ہے۔
ہندوستان میں 24 کروڑ مسلمان ہیں۔ مطلب یہ کہ آبادی کیلحاظ سے 13.5 فیصد، مگر 16 ویں لوک سبھا میں اس وقت صرف 24 مسلمان ہیں، یعنی 4.2 فیصد ان 24 میں صرف ایک مسلم خاتون پارلیمنٹ پہنچ پائی ہیں۔
مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا کے صدرڈاکٹر تسلیم رحمانی کہتے ہیں "ملک کی سیاست میں ملسمانوں کے ساتھ بہت دھوکہ ہوا ہے۔ سیکولرازم کی آڑمیں مسلمانوں کو دھوکہ دیا گیا ہے، جو سیاسی پارٹیاں اپنے کوسیکولرکہتی ہیں، اگر وہ واقعی میں سیکولرہیں تومسلمان امیدوار کو وہاں ٹکٹ دے کرجیت سے ہمکنار کرائیں، جہاں مسلمان کم اورہندوووٹرزیادہ ہیں۔
ڈاکٹر بی آرامبیڈکر یونیورسٹی، آگرہ کے پروفیسرمحمد ارشد کا کہنا ہے کہ 84۔1980کے اس دورمیں مسلمان امیدواراس لئے جیتے کیونکہ میدان میں ایک یا دومسلم امیدوارہوا کرتے تھے۔ آج کی طرح سے ایک سیٹ پر 5 سے 7 امیدوارالیکشن نہیں لڑا کرتے تھے۔ جیسے 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں مشرقی دہلی میں 6، چاندنی چوک میں 6 اور مرادآباد سیٹ پر7مسلم امیدوارمیدان میں تھے۔
پروفیسر ارشد اس معاملے میں یوپی کی سہارنپورسیٹ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں "مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے باوجود کانگریس کیعمران مسعود یہاں سے اس لئے ہارے کیونکہ ان کے مقابلے ان کے چچازاد بھائی شاذان مسعود سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے تھے۔ عمران مسعود تقریباً 70 ہزارووٹوں سے ہارے، جبکہ ان کے چچا زاد بھائی کو50 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے۔
ان کے مطابق دوسری مثال ہے رامپورکی سیٹ۔ کبھی مولانا ابوالکلام آزاد کی سیٹ رہی رامپورسے سماجوادی پارٹی کے امیدوارنصیراحمد خان کی شکست کی بڑی وجہ کانگریس کے نواب کاظم علی خان عرف نوید میاں کو ملا 1.5 لاکھ سے زیادہ ووٹ ہے۔
پروفیسرارشد کہتے ہیں کہ اس کی ایک بڑی وجہ مقامی پارٹیاں بھی ہیں، جو ایک مسلمان کے مقابلے دو تین اورمسلم امیدواروں کو ٹکٹ دے دیتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ملک میں بہت ہی کم سیٹ ایسی ہیں، جو مسلم اکثریتی ہیں۔ ورنہ زیادہ تر سیٹ پر مسلمان بکھرے ہوئے ہیں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن کمال فاروقی کہتے ہیں "مسلمانوں نے کبھی بھی اپنی سیاسی پارٹی نہیں بنائی۔ مسلم لیگ کیرل تک سمٹی ہوئی تھی اوراویسی کی پارٹی بھی ایک دائرے میں ہے، لیکن مسلمانوں نے ہرپارٹی کو ووٹ دے کراس میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی، لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوپائے، جو ان پارٹیوں کی بے ایمانی تھی۔
سیاست میں پچھڑنے کی دوسری وجوہات میں پارٹی کے نام پر بھی مسلم امیدوار گوارہ نہیں ہونا ہے۔ ڈاکٹر ارشد کہتے ہیں کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ 2014 میں کیا کانگریس اور کیا بی جے پی ہر پارٹی کے مسلم رہنما کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جموں وکشمیر کی اودھم پور سیٹ سے کانگریس جنرل سکریٹری غلام نبی آزاد، راجستھان کی ٹونک مادھوپور سیٹ سے کانگریس امیدوار اور کرکٹ اسٹار محمد اظہرالدین ایک لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے ہارے۔ اترپردیش میں وزیرخارجہ سلمان خورشید کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اسی طرح بی ایس پی لیڈر رہے نسیم الدین صدیقی کے بیٹے افضل صدیقی فتح پور سیٹ سے ہار گئے۔ اعظم خان کے حلقہ رامپور لوک سبھا سیٹ سے سماجوادی پارٹی کا مسلم امیدوار 20 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہار گیا جبکہ یہاں 49 فیصد مسلم رائے دہندگان ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ غیر بی جے پی جماعتوں کے مسلم امیدواروں نے ہی ہار کا منہ دیکھا تھا۔ بی جے پی کے مسلم چہرہ سید شاہنواز حسین بہار کی بھاگلپور سیٹ سے ہار گئے تھے۔
اترپردیش میں بی جے پی کسی بھی مسلمان کو ٹکٹ دیا نہیں دیا تھا۔ چھوٹی ریاستوں کو چھوڑدیں تو اترپردیش، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، گجرات اور مہاراشٹر جیسے ریاستوں سے ایک بھی مسلم لوک سبھا نہیں پہنچا۔ جبکہ یوپی میں مسلم طبقے سے بی ایس پی نے 19، سماجوادی نے 13 اور کانگریس نے 11 مسلم امیدوار اتارے تھے۔
سماجوادی پارٹی کے لیڈر اعظم خان کے ایک بار میڈیا میں دیئے گئے بیان پر غور کریں تو انہوں نے بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمان تو سماجوادی، بی ایس پی، کانگریس جہاں تھے، وہاں بنے رہے، لیکن اس بار ہندووں نے مسلمان امیدوار کوووٹ نہیں دیا۔
وہیں سماجوادی پارٹی سے راجیہ سبھا ممبرپارلیمنٹ منور سلیم نے بھی ایک بار کہا تھا کہ ہم نے تو آزادی کے وقت بھی ایک ہندو (مہاتما گاندھی)کو ہی اپنا بابائے قوم مانا تھا۔ اس کے بعد سے کسی نہ کسی ہندو لیڈر کے نیچے ہی کام کرتے رہے ہیں، لیکن لگتاہے کہ ہندو اب کسی مسلمان کو اپنا لیڈر نہیں بننے دینا چاہتے اور بغیر ہندو ووٹوں کے کوئی مسلمان الیکشن نہیں جیت سکتا۔
وہیں اس بارے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن کمال فاروقی کہتے ہیں کہ موجودہ سیاسی حالات میں مسلمانوں نے کے پاس اب صرف تین راستے ہی بچتے ہیں۔ پہلا یہ وہ سیاست سے دور ہوکرپڑھائی لکھائی اور کاروبار میں ترقی کرکے اپنامستقبل تیار کریں۔ دوسرا اپنی کوئی سیاسی پارٹی بنالیں، یا پھر ایک رائے ہوکر ایسی پارٹی کو ووٹ دینا شروع کردیں جو تقریروں میں ہی نہیں زمین پربھی مسلمانوں کے لئے فکر مندی سے کام کریں۔