ایم پی اور ایم ایل اے کے وکالت کرنے پر پابندی نہیں, سپریم کورٹ نے کہا یہ لوگ کل مدتی سرکاری ملازم نہیں ہیں
نئی دہلی ،25؍ ستمبر (آئی این ایس انڈیا؍ ایس ا و نیوز) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ممبران پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی کو وکالت کرنے روکا نہیں جا سکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ لوگ کل مدتی سرکاری ملازم نہیں ہیں۔ انہیں پریکٹس سے روکنے کا قانون بار کونسل آف انڈیا نے نہیں بنا یا ہے۔
گذشتہ 9جولائی کو اس تعلق سے سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ مرکزی حکومت نے اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایم پی اور ایم ایل اے سرکاری ملازم نہیں ہوتے ہیں۔ سماعت کے دوران بار کونسل آف انڈیا نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ موجودہ قوانین کے مطابق ممبران پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے وکالت کرنے پر پابندی نہیں ہے۔ درخواست بی جے پی رہنما اور وکیل اشونی اپادھیائے نے دائر کی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایم پی اور ایم ایل اے کا وکیل کی طرح پریکٹس کرنا بار کونسل آ ف انڈیاکے شک 49اور آئین کی دفعہ14کی خلاف ورزی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست دہندہ نے اس کے لئے بار کونسل آف انڈیا کو تفصیلی طور پر بتایا تھا لیکن بار کونسل نے اس پر کوئی کاروائی نہیں کی۔
ایم پی اور ایم ایل اے سرکاری خزانہ سے تنخواہ لیتے ہیں اور موکل سے فیس لیتے ہیں جو پیشہ وارانہ بدعنوانی ہے۔ درخواست دہندہ اشونی اپادھیائے اس سے قبل بار کونسل آف انڈیا کو خط کے ذریعہ ایم پی اور ایم ایل اے کو وکالت کرنے پر روک لگانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ اس خط پر غور کرنے کے لئے بار کونسل نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کمیٹی نے اکثریت کے فیصلہ میں کہا تھا کہ ایم پی اور ایم ایل اے وکالت کر سکتے ہیں۔ حالانکہ اس رپورٹ پر بارکونسل نے ابھی حتمی فیصلہ نہیں لیا ہے۔ کمیٹی کے تین اراکین نے کہا کہ ایم پی اور ایم ایل اے وکالت کرسکتے ہیں ۔اگر انہیں نکالنے کے لئے پارلیمنٹ میں تجویز آتی ہے تو وہ اس میں مداخلت نہیں کریں گے۔ بارکونسل نے اپنی میٹنگ میں کمیٹی کی رپورٹ پر غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ لیا کہ اس مسئلہ پر مزید غور وخوض کی ضرورت ہے۔ وکیل رہ چکے رہنماؤں میں بی جے پی اور کانگریس کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے بھی رہنما شامل ہیں۔ ان میں ارون جیٹلی، روی شنکر پرساد، کپل سبل، سلمان خورشید ، پی چدمبرم اور ابھیشیک منو سنگھوی شامل ہیں۔