کیا سنگھ پریوار ثابت کرناچاہتا ہے کہ جناح کا نظریہ درست تھا ؟............... سعید حمید

Source: S.O. News Service | By Shahid Mukhtesar | Published on 28th March 2017, 1:00 PM | اسپیشل رپورٹس |

سنگھ پریوار نے اسکرپٹ لکھا ہے۔
بی جے پی ڈائرکٹر ہے۔
مودی۔امت شاہ ، راج ناتھ سنگھ سے لے کر یوگی آدتیہ ناتھ تک، مختلف چہرے اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
ہندو راشٹر کی فلم آگے بڑھ رہی ہے۔
جمہوریت کا وجود خطرے میں ہے؟
یا نہیں؟
کیا سنگھ پریوارکا تھنک ٹینک یہ طے کرے گا؟
لیکن۔
آج جو منظر نامہ ہے۔
اس کی روشنی میں آنے والے مناظر کا جو اندازہ کیاجارہا ہے، اس سے مسلمانوں ہی نہیں۔ بلکہ ملک کے سیکولر طبقے میں تشویش پیدا ہورہی ہے۔
یوپی الیکشن کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔
اور پھر سنگھ پریوار کے ایک تھنک ٹینک۔
ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے اپنی زبان کھولی۔
انہوں نے کہا۔
دوبرس (یعنی2019)میں بی جے پی کو راجیہ سبھا میں بھی اکثریت حاصل ہوجائے گی اور بی جے پی سرکار پارلیمنٹ میں ایک قانون پیش کرے گی۔
ایودھیا میں (بابری مسجد کی جگہ) رام مندر تعمیر کیا جائے۔ او ر راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل ہونے کے سبب یہ قانون پاس کرلیا جائے گا۔
ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے 2014 میں لوک سبھا الیکشن سے قبل (جبکہ مرکز میں یوپی اے سرکار قائم تھی) سنگھ پریوار کی سیاسی حکمت عملی کے بارے میں کہا تھا۰
’’ہماری سیاسی حکمت بہت سیدھی ہے۔
ہم 85 فیصد ہندئووں کو متحد کریں گے۔
15 فیصد مسلمانوں کو منتشر کریں گے‘‘۔
2014 میں پارلیمنٹ الیکشن سے قبل دیئے گئے اس بیان پر کسی نے توجہ نہیں دی۔
لیکن۔
2014 کے پارلیمنٹ الیکشن کے نتائج۔
بی جے پی کی فتح ہے ، مودی کے وزیر اعظم بننے تک کے واقعات نے کچھ حلقو ں کو مجبور کیا کہ وہ اس بیان کا نوٹس لیں۔
اور یوپی اسمبلی انتخابات 2017 کے حیرت انگیز نتائج کے بعد تو ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کے بیان کا ایک ایک لفظ ایک کہانی بیان کررہا ہے۔
ڈاکٹر سبرامنیم سوامی دو سال بعد کی بات کررہے ہیں۔ 2019 کی بات۔
جب پھر ایک بار لوک سبھا کا الیکشن ہوگا۔
مودی وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار ہوں گے۔
اترپردیش میں 325 سے زائد سیٹیں حاصل کرنا بی جے پی کے لئے یوں ضروری تھا کہ اسے راجیہ سبھا میں بھی اکثریت حاصل ہوجائے۔
اور۔
پھر لوک سبھا میں بی جے پی جو بل پاس کرے۔
اسے راجیہ سبھا میں بھی منظور کروانے میں کوئی پریشانی نہیں ہو۔
حالانکہ دونوں اعلیٰ ترین جمہوری اداروں یعنی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل کرنے کا اپنا نشانہ سنگھ پریوار نے پورا کرہی لیا ہے۔
اب بی جے پی ملک کی اکثریت پارٹی ہے۔
اکثریتی طبقے کی پارٹی ہے۔
اس نے اکثریتی طبقے کو متحد کرلیا ہے۔
اقلیتی طبقے کو منتشر کرلیا ہے۔
اور اکثریت کی طاقت کا کھیل اپنی نئی منزل کی طرف، ایک نئے مرحلے کی طرف رواں دواں ہے۔
اب آگے کیا ہوسکتا ہے ؟
لوک سبھا راجیہ سبھا میں اکثریت کی طاقت کیا گل کھلاسکتی ہے؟
۱۔تین طلاق پر پابندی کا قانون پاس ہوسکتا ہے۔
۲۔ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا قانون پاس ہوسکتا ہے۔
۳۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خاتمے کا قانون پاس ہوسکتا ہے۔
۴۔ مسلم پرسنل لاء کے خاتمے ، کامن سول کوڈ کے نفاذ کا قانون پاس ہوسکتا ہے۔
راجیہ سبھا میں موجود اراکین کے ریٹائرڈ ہونے اور ان کی جگہ بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ کے انتخاب (موجود پانچ اسمبلیوں میں بی جے پی کی فتح کے سبب) کا مرحلہ ۲ سال میں مکمل ہوجائے گا۔
2019 میں لوک سبھا الیکشن ہوگا۔
اور راجیہ سبھا میں بھی بی جے پی کی اکثریت ہوگی۔
اکثریت کے نشے میں چور سنگھ پریوار کے چور دروازے سے ملک میں ہندو راشٹر کے قیام کے منصوبے کو آج بخوبی محسوس کیاجاسکتا ہے۔
مسلمان تو ہنوز منتشر ہیں۔
بلکہ ۔ابھی کنفیوز بھی ہیں۔
اقلیت منتشر ہے۔
اکثریت متحد ہے۔
اب لوک سبھا الیکشن کی تیاری ہے۔
تین طلاق پر پابندی عائد ہونہ ہو۔
تین طلاق پر پابندی کا قانون تو پاس ہوسکتا ہے۔
ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ۔
رام مندر بنے نہ بنے۔
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا قانون تو پاس ہوسکتا ہے۔
مسلم پرسنل لاء کو ختم کرکے کامن سول کوڈ نافذ ہونہ ہو۔
کامن سول کوڈ کے نفاذ کا قانون پاس تو کیاجاسکتا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خاتمے کا قانون پاس کیاجاسکتا ہے۔
اور ۔
اس کے بعد مئی2019 میں بی جے پی حکومت اور مودی کو پھر سے وزیر اعظم بنانے کے لیے ووٹ مانگنے میدان میں اترے گی۔
تو کیا اسے ووٹ نہیں ملے گا؟
یہ کہا جائے گا: جو قانون کانگریس نے 67 برس میں نہیں بنایا، وہ سارے قانون بی جے پی اور مودی نے پانچ برس میں بنادئیے۔
اس لئے۔
ان قوانین پر عمل کرنے کے لئے اگلے پانچ برس کے لئے ایک بار پھر مودی اور بی جے پی کو بھر پور طاقت سے کامیاب بنائو۔
یوپی میں جس طرح اسمبلی کا نتیجہ سامنے آیا، متذکرہ منظر نامے میں2019 میں لوک سبھا الیکشن کا نتیجہ بھی ویسا برآمد ہوجائے۔
تو کیا یہ حیرت انگیز بات ہوگی؟
سنگھ پریوار کا اسکرپٹ۔
بی جے پی ڈائریکشن۔
مودی، امیت شاہ اینڈ کمپنی کی اداکاری۔
کیا یہ سیاسی فلم سپر ہٹ نہیں ہے۔
کیا 2019 میں اس کے سیاسی باکس آفس ریکارڈ بریک کرنے میں کوئی شک وشبہ ہوسکتا ہے۔
فی الحال تو نہیں بھائی۔
اکثریتی طبقے کے لئے جمہوری اداروں میں غالب اکثریت حاصل کرنے کے بعد اگر بی جے پی خاص طور پر ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو مغلوب کرنے کے لئے وہ سب کرے گی۔
جس کا اندیشہ مندرجہ بالا سطور میں کیاگیا ہے۔
تو سنگھ پریوار بانی پاکستان محمد علی جناح کے اس نظریے کو درست ثابت کردے گا، جس کی بناء پر محمد علی جناح نے ملک کی تقسیم کو قبول کرلیا۔
لیکن میتھ میٹکل جمہوریت کے موجودہ نظام کو جس میں اکثریت کے اقلیت پر غالب آنے اور اقلیت کے مفتوح ہوجانے کے امکانات ہیں۔قبول نہیں کیا۔
محمد علی جناح نے مسلمانوں (اقلیتوں) کے لئے علاحدہ رائے دہندگی یعنی (SEPERATE-ELECTORATE)کا راستہ منتخب کیا تھا جس میں مسلم حلقے نہ صرف ریزرو ہوجاتے تھے بلکہ مسلم امیدواروں کو صرف مسلم ووٹرس ہی منتخب کیاکرتے تھے۔
انگریزوں نے جناح کے اس مطالبے کو تسلیم کیا۔
اس کے نتیجے میں۔
ایوان حکومت میں ہمیشہ 33 مسلمانوں کی نمائندگی یقینی رہی۔
مسلم لیگ محمد علی جناح کے نقش قدم پر دلتوں کے لئے بھی ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر نے علاحدہ رائے دہندگی (SEPERATE-ELECTORATE)کا مطالبہ کیا تھا۔
لیکن۔
اس کے خلاف گاندھی نے مرن برت رکھ دیا۔
پورے ملک میں دلتوں کے  خلاف جنون پیدا ہوگیا اور اندیشہ تھا کہ بڑے پیمانے پر دلت مخالف فسادات پھوٹ پڑتے۔
اس لیے۔
سیاسی بلیک میل کے ذریعہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو مجبور کیا کہ وہ اپنا مطالبہ مسترد کرکے ’’پونہ معاہدہ ‘‘ کرلیں۔
ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر اس سازش کا شکار بن گئے اور انہوں نے پونہ معاہدہ کرلیا۔
لیکن۔
علاحدہ رائے دہی کے معاملے میں جناح نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔
انہیں ڈر تھا۔ اگر مستقبل میں ملک کی ستر فیصد اکثریت متحد ہوجائے، تو کانگریس کے پیش کردہ جمہوری (موجودہ) نظام میں تیس فیصد اقلیت بے دست وپا ہو کر رہ جائے گی اور متحد اکثریت اقلیتی طبقے پر حاوی ہوجائے گی۔
(کیا آج جناح کے خدشات درست ثابت ہورہے ہیں)
کیا جناح نے 75 سال پہلے ہی متحدہ ہندوستان میں سرگرم سنگھ پریوار کی ذہنیت رکھنے والے سیاست دانوں کے ارادوں کو بھانپ لیا تھا۔
کیا انہوں نے 75 سال قبل ہی سادہ جمہوریت کی آڑ میں ہندو راشٹرکے قیام کے منصوبوں کی سازش کو سمجھ لیا تھا؟
کیا انہوں نے اکثریت کی طاقت کے سامنے اقلیتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردینے والی فریبی جمہوریت کے مقابلے کے لئے مسلمانوں کے لئے مکمل ریزرویشن یا خصوصی ریزرویشن (Exclusive-Reservation)کے طور پر علاحدہ رائے دہی یا ((SEPERATE-ELECTORATE)کے لئے ضد کی تھی۔ جس کے ذریعہ جمہوری ایوانوں میں مسلمانوںکے لیے 33 فیصد نمائندگی کو یقینی بنایا گیا؟
کیا سنگھ پریوار کی ذہنیت رکھنے والوں نے ملک کی تقسیم کو قبول کرلیا لیکن علاحدہ رائے دہی (مسلمانوں اور اقلیتوں کے لیے) کو اسی لئے قبول نہیں کیا کہ وہ ایک دن جمہوریت کے ذریعہ ہندو اکثریت کا راج ملک میں قائم کرناچاہتے تھے؟
آج یہ سارے سوالات اٹھ کھڑے ہورہےہیں، جو اس بات کا اشارہ کررہی ہیں کہ کہیں سنگھ پریوار جناح کے نظریات کو درست ثابت نہ کردے۔

(بشکریہ : روزنامہ ممبئی اردو نیوز)

ایک نظر اس پر بھی

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

اترکنڑا میں جاری رہے گی منکال وئیدیا کی مٹھوں کی سیاست؛ ایک اور مندر کی تعمیر کے لئے قوت دیں گے وزیر۔۔۔(کراولی منجاؤ کی خصوصی رپورٹ)

ریاست کے مختلف علاقوں میں مٹھوں کی سیاست بڑے زورو شور سے ہوتی رہی ہے لیکن اترکنڑا ضلع اوراس کے ساحلی علاقے مٹھوں والی سیاست سے دورہی تھے لیکن اب محسوس ہورہاہے کہ مٹھ کی سیاست ضلع کے ساحلی علاقوں پر رفتار پکڑرہی ہے۔ یہاں خاص بات یہ ہےکہ مٹھوں کے رابطہ سے سیاست میں کامیابی کے ...