کنداپور: بنیادی سہولیات سے محروم نکسل متاثرہ دیہات کوڈابائیل :30سالہ جدوجہد پر کوئی کان دھرنے والا نہیں
کنداپور :۲۵/ستمبر (ایس او نیوز) کنداپور تعلقہ کے کئی دیہی علاقے ترقی یافتہ ہیں اور کچھ ترقی پذیر ہیں ، لیکن کیا آپ یہ ماننے کو تیار ہیں کہ اسی تعلقہ میں ایسے اور کئی دیہی علاقے ہیں جو ابھی تک بنیاد ی سہولیات سے محروم ہیں؟اور کیا آپ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ آ ج بھی زور زبردستی ، چودھراہٹ کے چلتے زمینی مالکان بنیادی سہولیات کے لئے سد راہ بنے ہوئے ہیں؟۔ ماننا ہی ہوگا کیونکہ اس کی واضح مثال ہم یہاں پیش کررہے ہیں۔ اس رپورٹ کا مطالعہ تو کریں۔
کنداپور تعلقہ میں 56گرام پنچایت تھیں، گذشتہ سال دیہی حدود کی تجدید کاری میں پنچایتوں کی تعداد 65تک پہنچ گئی ہے۔ ترقی کی نظر سے دیہات کی نئی حدبندی کی گئی تھی ، سال بیت گیا لیکن یہاں تبدیلی کی کوئی ہوا تک نہیں چھوئی ہے۔ کنداپور تعلقہ کے ہینگولی دیہی پنچایت حدود کے قریب والے نکسل متاثرہ مقام کوڈابائیل کے عوام ابھی تک بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔
کوڈابائیل میں قریب 25گھر ہیں، کل 352لوگ یہاں رہائش پذیر ہیں، لیکن یہ سب مکمل طورپر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، ابھی تک مقام کو جوڑنے والی ایک سڑک کی تعمیر تک ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ ویسے یہاں ایک سڑک ہے ، لیکن مین روڈ سے منسلک کرنے والے روڈ کی تعمیر کے لئے ایک مقامی فرد نے عدالت میں عرضی داخل کرکے رٹ لائی ہےاور یہی محرومی کی اصل جڑ ہے ۔ کوڈابائیل مضاف سے 10طلبا لوئر پرائمری ،15ہائر پرائمری ، 4طلبا کالج کو پیدل راستہ ، پگڈنڈیوں اور کیچڑ سےہوکر گزرتے ہیں۔ یہاں 20سے زیادہ لوگ عمر رسیدہ ہیں، 5حاملہ ہیں، 10بستر مرگ پر ہیں، کلی طورپر یہاں کے عوام کو کوئی طبی ضرورت پیش آتی ہے تو کسی چادر وغیرہ میں انہیں لپیٹ کر گلی والے راستہ سے گزرنے پر مجبور ہیں۔ ان مسائل کو لے کر متعلقہ محکمہ جات، مقامی گرام پنچایت کو شکایات سونپی گئیں، دو مرتبہ تحصیلدار صاحب کا دورہ بھی ہواہے۔ لیکن سہولیات کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں، حالات سے بیزار دیہی عوام برہم ہوکر سڑک تعمیر نہ ہونے پر سخت احتجاج کی دھمکی دے چکے ہیں۔
اس سلسلے میں جب سڑک تعمیر کے لئے سدراہ بنے زمین مالک کے وکیل شریار گوپال کرشنا شٹی نے کاکہنا کچھ اور ہے، چونکہ معاملہ عدالت میں ہے اور جس جگہ پر سڑک تعمیر کرنی ہے وہ متعلقہ زمین مالک کی ہے اس لئے قانون کے مطابق ہی آگے بڑھنا چاہئے، اگر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ہتک عدالت کے مجرم ہونے کی بات کہی۔ دیہات کے متاثر ٹی ایم چندر مڈیوال نے بتایا کہ گذشتہ 30سالوں سے سڑک کے لئے جدوجہد کررہے ہیں، ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہواہے، ہرایک کام کے لئے ہم مجبورہیں ، کیا کریں کوئی سننے والا نہیں ۔ یوگیش نامی مکین نے بتایا کہ کئی مرتبہ تحصیلدار ، اے سی ، ڈی سی کو اپیل دے چکے ہیں، ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ، جب افسران ہی اس پر توجہ نہیں دے رہےہیں تو پھر سخت احتجاج کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ باقی نہیں ہے۔
دکھ بات یہ ہے کہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کانعرہ سارے ملک میں گونج رہاہے لیکن عملی سطح پر اسی دیہات کی کئی لڑکیاں صرف اس لئے تعلیم نہیں حاصل کرپارہی ہیں کہ انہیں اسکول جانے کےلئے جنگل سے گزرناپڑتاہے۔ کئی مرتبہ گرام سبھا میں بھی سوال اٹھانے کی بات متو پجارت نے کہی۔ جن مسائل سے یہ دیہی عوام دوچار ہیں اوراپنے جائز حق کے لئے گذشتہ 30سال سے جدوجہد کررہے ہیں ، اس کی طرف عوامی نمائندے ہوں کہ افسران توجہ نہیں دینا تعجب خیز ہے۔ کیا متعلقہ دیہات کے عوام کو بنیادی سہولیات میسر آئیں گی یا یوں ہی ان کی زندگی گزرے گی ، دیکھنا ہوگا۔
:SahilOnline Coastal news bulletin in URDU dated 26 September 2016