کشمیرکی صورتحال افسوسناک،طلبہ وطالبات میں اضطراب کی لہر: پروفیسرسیف الدین سوز، سابق مرکزی وزیرنے صرف سات فیصدووٹنگ دہلی کے لیے تشویش کااظہارکیا
نئی دہلی:28/اپریل(ایس او نیوز /آئی این ایس انڈیا) سابق مرکزی وزیرپروفیسرسیف الدین سوزنے کہاہے کہ ”حال کے دنوں میں،میں نے دہلی میں اس بات کی پوری کوشش کی کہ ہندوستان کی سو ل سوسائٹی کشمیر کے بارے میں کیا سوچتی ہے جہاں قتل و غارت کا بازار گرم ہے اور نوجوان لڑکے اورلڑکیاں اور طلباء و طالبات نہایت ہی اضطراب کی زندگی گذار رہے ہیں۔اس صورتحال کا ایک منظر یہ بھی ہے کہ انتظامیہ کبھی نیٹ ورک بندکرتی ہے اور کبھی سوشل میڈیا پر ٹوٹ پڑتی ہے۔انہوں نے کہاکہ یہاں دہلی میں مجھے یہ جانکاری ہوئی کہ ہندوستان کی سول سوسائٹی کشمیر کے بارے میں بہت ہی پریشان ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ حالیہ سرینگر پارلیمانی ضمنی انتخابا ت میں صرف ۷ فیصد لوگوں کے شرکت سے گویا دہلی پہلی بار ہل گئی ہے۔اس پس منظر میں سول سوسائٹی حیران ہے کہ وزیر اعظم مودی کشمیر کی طرف کیوں متوجہ نہیں ہے۔ جہاں اُن کو چیلنج کے ساتھ ساتھ کشمیر کی گتھی کو سلجھانے کا ایک اہم موقع بھی فراہم ہو سکتا ہے۔ سابق مرکزی وزیرنے کہاہے کہ یہاں سول سوسائٹی کا خیال ہے کہ سیاسی اختلافات کے باوجودیہ مانناپڑے گا کہ بحیثیت وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھ میں ہی ٹرمپ کارڈ ہے اور اُس کو آگے بڑھ کر براہ راست کشمیر کی طرف پوری توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ دہلی کی صورت حال کا ایک منظر یہ بھی ہے کہ قومی سطح کی اپوزیشن جماعتیں کشمیر کے مسئلے کا حل نکالنے کیلئے وزیر اعظم مودی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گے بلکہ کانگریس پارٹی سمیت اپوزیشن کی ساری جماعتیں نریندر مودی کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کیلئے تعاون دیں گے۔دہلی کی سیول سوسائٹی نے اس بات کابھی نوٹس لیا ہے کہ کشمیر میں جہاں مین سٹریم جماعتیں خاک چاٹ رہی ہیں، وہاں حریت یک جھٹ ہوکر ایک آوازمیں بول رہی ہے۔ یہاں کے سیاسی حلقے یہ بھی سونچ رہے ہیں کہ حریت کا یک زبان ہوکر ہولنا فائدہ مند ہے کیونکہ اس صورت میں حریت کے ساتھ مفیداورفیصلہ کن بات ہوسکتی ہے۔“