کاس گنج فساد اور پولیس کی من مانی۔درجنوں دلت اور مسلم افراد پر قتل و غارت گری کے علاوہ دہشت گردی مخالف قانون کا اطلاق
نئی دہلی 11؍فروری ( ایس او نیوز) امسال یوم جمہوریہ کے موقع پر اترپردیش کے شہر کاس گنج میں شہید عبدالحمید سرکل پر ترنگا لہرانے کے سلسلے میں زعفرانی بریگیڈ اور مسلم نوجوانوں کے بیچ ہونے والی جھڑپ نے جو فرقہ وارانہ فساد کا روپ لیا تھا او ر گولی لگنے سے ایک غیر مسلم نوجوان چندن گپتا کی موت واقع ہوئی تھی،اس سلسلے میں پولیس کی طرف سے من مانی اور قانون کے بے جا اورغلط استعمال کرنے کے معاملے سامنے آئے ہیں۔
دلتوں پر دہشت گردی مخالف دفعات:ایسو سی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس(APCR)کے کوآرڈینیٹر ایڈوکیٹ ابوبکر صباق کی طرف سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق کاس گنج فساد کے تعلق سے گرفتار کیے گئے افراد پر جہاں لوٹ مار، آتشزنی، بدامنی پھیلانے ، قتل کا ارتکاب اور قتل کی کوشش کے الزامات لگائے گئے ہیں ان میں سے 13افراد کے خلاف دہشت گردی مخالف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ 1967(UAPA)کی دفعہ 7 کے اضافے کے ساتھ بھی کیس درج کیے گئے ہیں ۔ایکٹ کی دفعہ 7ان لوگوں پر لگائی جانی چاہیے جو کسی ایسی تنظیم کے رکن ہیں جس پر حکومت نے پوری تحقیقات کے بعد پابندی لگارکھی ہے ۔ او راس تنظیم کے افراد کے پاس فنڈ موجود ہے جو وہ دہشت گردی میں تعاون یا عمل کے لئے استعمال کرنے کا پورا یقین ہوجائے۔ اس کے علاوہ اس قانون کو لاگو کرنے کے لئے مرکزی حکومت کی طرف سے اجازت لینا لازمی ہے۔ مگر مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ یہ دفعہ جن پر لگائی گئی ہے وہ سب ہندو دلت اور پسماندہ طبقات کے افراد ہیں ۔ایڈوکیٹ ابوبکر صباق کے مطابق یہ اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ کاس گنج فساد کے تعلق سے پولیس نے قانونی لوازمات کا خیال رکھے بغیر من مانے طریقے سے نہ صرف لوگوں کو گرفتار کیا ہے بلکہ پورے منصوبے کے ساتھ متعصبانہ طور پر معاملات درج کیے ہیں۔
حقوق انسانی تنظیموں کا تاثر:کاس گنج فساد کی آزادانہ تحقیقات کے لئے انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ ذمہ داران کے جتنے بھی وفود اس علاقے میں گئے تھے ان سب کا یہی تاثر ہے کہ پولیس نے فساد کی تحقیقات اور ملزموں کی گرفتاری کے سلسلے میں ذات پات اور فرقہ وارانہ تعصب سے کام لیا ہے۔ آل انڈیا پیوپلس فورم(AIPF)کی رکن کویتا کرشنن کے مطابق وہاں پر لوگوں نے بتایا کہ پولیس نے گرفتاریوں میں مذہب اور ذات پات کے تعصب کا کھلا مظاہرہ کیا ہے۔جیسا کہ اگر ہندو ملزم لودا راجپوت یا اونچی ذات سے تعلق رکھتا ہے تو اس پر صرف آئی پی سی کی دفعہ 151لگاکر انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے۔ اور اگر ملزم مسلمان، دلت یا دیگر پسماندہ طبقات(او بی سی) سے ہوتو اس پر آئی پی سی کی قتل302) (اور عمدقتل(307) کی سخت ترین دفعہ کے علاوہ دوسری سنگین دفعات لگاکر جیل میں ٹھونس دیا گیا ہے۔
کویتا کرشنن کا سوال:خیال رہے کہ کی ایٹا علاقے کے رکن پارلیمان رجبیر سنگھ جن کی اشتعال انگیز تقریر کو فرقہ وارانہ آگ بھڑکنے کا سبب بتایا جاتا ہے اور وی ایچ پی کے ریاستی صدر پرمود جاجو ہندوؤں کی لودا راجپوت کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور پولیس کھلے عام اس طبقے کے ساتھ رعایت کا مظاہرہ کررہی ہے۔کویتا کرشنن سوال کرتی ہیں کہ: ’’ مسلمانوں کی طرف سے قتل و غارت گری کی کسی منصوبہ بند سازش کاکوئی وجود ہی نہیں ہے تو پھر پولیس چندن گپتا قتل کے معاملے مسلم نوجوانوں کو کیوں گرفتار کررہی ہے۔جبکہ اکرم کی ایک آنکھ چلی گئی ہے۔ نوشاد کی ران میں گولی لگی ہے۔ چھوٹن نامی نوجوان قاتلانہ حملے میں بچ گیا ہے۔ لیکن ان حملوں کے تعلق سے کسی ایک کے خلاف بھی عمد قتل کی دفعہ نہیں لگائی گئی ہے ۔ آخر کیوں؟‘‘
پولیس تعصب کی مثالیں:اس طرح کے تعصب کی کچھ زندہ مثالیں بھی پیش کی جارہی ہیں۔جیسا کہ راجویر سنگھ یادو نے بتایا کہ ان کا بیٹا راج جوکہ ایک کمپاونڈرہے اور اس کا دوسراساتھی حالات کوبگڑتے دیکھ کر دواخانہ بند کرنے ہی والے تھے کہ پولیس نے ان دونوں کو گرفتار کرلیا۔لیکن ایف آئی آر میں دونوں کو الگ الگ مقامات سے گرفتار کرنے کی بات کہی گئی ہے اوران کے خلاف الزامات بھی جداگانہ ہیں۔ راج یادو پر دیگر دفعات کے علاوہ دہشت گردی مخالف قانون کی دفعہ 7کا اطلاق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ وہ ’گھنٹہ گھر‘کے مقام پر ہجوم کے ساتھ لوٹ مار اور فساد مچانے میں مصروف تھا۔ جبکہ اس کے دوسرے ساتھی کو جو کہ لودا راجپوت طبقے سے تعلق رکھتا ہے دفعہ 151لگاکر ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے۔ایک نوجوان عمران کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ فساد کے موقع پر شہر میں موجود ہی نہیں تھا۔ نہ وہ پرچم لہرانے میں شامل تھااور نہ سنگ زنی اور تصادم میں ملوث تھا۔ بلکہ گجرات میں ملازمت کررہا تھا۔ لیکن دودن بعد جب شہر پہنچا تو فساد پھیلانے کے الزام میں اسے بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔
ایک اور واقعہ میں مہرالنساء اور مہک نامی دوبہنیں بتاتی ہیں کہ ان کے والد ناصرالدین (65سال) کو پولیس نے ان کی دکان سے اٹھا لیا۔پھر گھر آکر ناصرالدین کے سولہ سالہ بیٹے کو پوچھ تاچھ کے لئے پولیس بلاکر لے گئی اور اس کے بعد باپ اور بیٹے دونوں پر دفعہ 302کے تحت قتل کا معاملہ درج کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔
سب سے چونکانے والی مثال:پولیس کے ذریعے فرقہ وارانہ تعصب کے ساتھ قانون کے غلط استعمال کی سب سے چونکانے والی مثال یہ پیش کی جاتی ہے کہ ایک مسلم اور ایک غیر مسلم نوجوان دوست پردیپ اور خالد ایک ہی اسکوٹر پر بائک پر بدایون سے نکلے تھے اور کاس گنج کے اطراف سے ہوکر بلرام گیٹ کے پاس واقع خالد کے نانی کے گھر جارہے تھے۔پولیس نے ان دونوں کو روک کر گرفتار کرلیا۔ ان کے وکیل ہاشم احمد کے مطابق خالد پر فساد سے متعلق کئی دفعات لگانے کے ساتھ عمد قتل کی دفعہ307لگاکر اسے جیل میں ٹھونساگیا جبکہ اس کے ساتھی پردیپ پر دفعہ 151لگاکر ضمانت پر رہائی کی پیش کش کی گئی ۔مگر پردیپ نے اپنی دوستی نبھاتے ہوئے ضمانت پر رہا ہونے سے انکار کیا اورخالد کے ساتھ جیل میں رہنے کو ترجیح دی۔
جہاں تک چندن گپتا کے قتل کا معاملہ ہے اس میں مسلم سماج کے 29افراد کو ملزم بنایا گیا ہے ۔ سلیم نامی نوجوان کو کلیدی ملزم بنانے کے بعد اس کے دو دیگر بھائیوں وسیم اور نسیم کو بھی گرفتار کرلیاگیا ہے جس کے ساتھ اس معاملے میں گرفتار افراد کی تعداد 19ہوگئی ہے۔ان لوگوں پر قتل اور عمد قتل کی دفعات کے علاوہ چندن گپتاکی شکایت کو بنیاد بناکر124A دیش سے غداری کی دفعہ کے تحت بھی الزام عاید کیے گئے ہیں۔