کاروار بوٹ حادثہ: زندہ بچنے والوں نے کیا حیرت انگیز انکشاف قریب سے گذرنے والی بوٹوں سے لوگ فوٹوز کھینچتے رہے، مدد نہیں کی؛ حادثے کی وجوہات پر ایک نظر
کاروار23؍جنوری (ایس او نیوز) کاروار ساحل سمندر سے پانچ کیلو میٹر کی دوری پر واقع جزیرہ کورم گڑھ پر سالانہ ہندو مذہبی تہوار منانے کے لئے زائرین کو لے جانے والی ایک کشتی ڈوبنے کا جو حادثہ پیش آیا ہے اس کے تعلق سے کچھ حقائق اور کچھ متضاد باتیں سامنے آرہی ہیں۔ سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ کشتی جب اُلٹ گئی اور لوگ ڈوب رہے تھے تو قریب سے گذرنے والی کشتیوں کے لوگوں نے ان کی مدد نہیں کی، بلکہ وہ دور سے ہی موبائل پر فوٹوز اور وڈیوز لینے میں مصروف رہے۔
یاد رہے کہ اس المناک حادثے میں کشتی پر سوار 35/زائرین میں سے 16افراد کی جان چلی گئی ہے جن میں سے 14لاشیں اب تک دستیاب ہوئی ہیں اور مزید 2لاشوں کے لئے تلاشی مہم جاری ہے۔ جبکہ کشتی پر موجودبقیہ 19افراد کو بچالیا گیا ہے۔ ضلع شمالی کینرا کے ایس پی ونائیک پاٹل کے بیان کے مطابق سوموار کو جب حادثہ رونما ہواتھا تو اس دن 8/لاشیں سمندر سے برآمد کی گئی تھیں۔ پھر منگل کے دن مزید 6/لاشیں برآمد ہوئیں۔ بقیہ دو لاشوں کے لئے نیوی کے علاوہ کوسٹ گارڈز، بحری جہاز، ہیلی کاپٹرس اور دیگر کشتیوں کے توسط سے سمندر کے علاوہ ندیوں میں بھی تلاشی مہم جاری رکھی گئی ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ جن 19افراد کو بدقسمت کشتی سے بچالیا گیا ہے ان میں بوٹ کے مالک؍ڈرائیور اور عملے پر مشتمل چار افراد بھی شامل ہیں۔ بوٹ کے مالک؍ ڈرائیوردیانند جادھو کو پولیس نے دفعہ 304آئی پی سی کے تحت (قتل کے ارادے کے بغیرموت کا سبب بننا ) معاملہ درج کرتے ہوئے گرفتار کرلیا ہے۔
کشتی کیسے غرقاب ہوئی: ضلع سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کا کہنا ہے کہ ’’ زائرین کو جزیرے پر لے جانے والی بوٹ میں 28لائف جیکیٹس موجود تھے۔لیکن بدقسمتی سے بوٹ کے مالک اور ڈرائیور نے کسی کو بھی لائف جیکیٹ فراہم نہیں کیے۔ تمام لائف جیکیٹس ایک باکس میں بند پڑے ہوئے تھے۔ حادثہ اس وقت پیش آیا جب زائرین سے بھری ہوئی مذکورہ کشتی کالی ندی اور سمندر کے سنگم پر تھی۔ اس وقت اوپری موجیں بہت ہلکی تھیں مگر زیریں لہریں بہت تیز چل رہی تھیں۔ پھر اچانک ایک بہت ہی تیز موج اٹھی اور کشتی سے ٹکراگئی، جس کی وجہ سے کشتی کا انجن بند ہوگیا۔ اس موقع پر ڈرائیور کشتی پر قابو بحال نہ رکھ سکا اور کشتی سمندری موج کے متوازی رخ پر جھک گئی۔ پھر ایک دوسری موج جب اس کشتی سے ٹکرائی تو سمندر کا پانی کشتی میں بھر گیااور وہ ڈرائیور کے قابو سے باہر ہوگئی کیونکہ انجن بند ہوجانے کی وجہ سے ڈرائیور بے بس ہوگیا تھا۔اس کے ساتھ ہی مسافروں کے اندر خوف و دہشت اور افراتفری کاعالم پیدا ہوگیا تھا، جس کے ساتھ ہی کشتی الٹ گئی۔‘‘
کیا کشتی کو اجازت نامہ ملا تھا؟: ضلع ایس پی کی بات اگر مانیں تو انہوں نے بتایا ’’کشتی کو 24/زائرین اور 4عملے کے افراد کو بیک وقت لے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔لیکن ہمیں شبہ ہے کہ اس کشتی میں 7بچے بھی موجود تھے۔ جنہیں شاید کشتی کے مالک نے مسافروں کی تعداد میں شمار نہیں کیا تھا۔ زیادہ تر بچے اپنے والدین کے زانوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ حادثے میں بچنے والے ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ کشتی میں صرف 2مسافر کھڑے ہوئے تھے ، باقی سب بیٹھے ہوئے تھے۔بوٹ میں 28لائف جیکیٹس تھے جن میں سے 24ہم نے برآمد کرلیے ہیں۔ایک مسافر نے بتایا کہ جب مشکل گھڑی میں کشتی بان سے لائف جیکیٹس مانگے گئے تو اس نے دینے سے انکار کردیا۔اس انکار کی وجہ ابھی ہمیں معلوم نہیں ہوئی ہے۔‘‘
ضلع انتظامیہ کی تیاریاں: بتایاجاتا ہے کہ ضلع انتظامیہ نے جزیرے پر ہونے والے سالانہ تہوار کے پیش نظر سمندری راستے سے زائرین کو لے جانے اور لانے کے تعلق سے احتیاطی اقدامات کیے تھے اورکچھ پابندیاں لاگو کی تھیں۔جس میں ایک تو کشتیوں کی تعداد کو محدود کردیا گیاتھا۔ تہوار سے چار دن قبل بوٹ مالکان کے ساتھ افسران کی ایک میٹنگ منعقد کی گئی تھی۔اور انہیں اپنی کشتیوں میں لائف جیکیٹس لے جانے کی سختی کے ساتھ ہدایت کردی گئی تھی۔ محکمہ بندرگاہ کی جانب سے صرف 16کشتیوں کو جزیرے تک مسافروں کو لے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ایس پی ونائیک پاٹل کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک روایتی قسم کا تہوار ہے اس لئے بہت سے ماہی گیر اپنے طور پربھی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مختلف مقامات سے اپنی کشتیوں پر جزیرے کی جانب روانہ ہوتے ہیں ۔ اب حادثے سے متعلق مہم اور کارروائی ختم ہونے کے بعد آئندہ کے لئے اس سلسلے میں واضح پالیسی بنانے پر غور کیا جائے گا اور بعض مخصوص مقامات سے ہی روانگی کی اجازت دی جائے گی۔‘‘
دوسری طرف ڈپٹی انسپکٹر جنرل ایس ایس ڈاسیلا،کمانڈر کوسٹ گارڈ کرناٹکا نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس معاملے میں بہت سارے مسائل ہیں ، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جیسے مقررہ تعداد سے زیادہ افراد کو کشتیوں میں بھر کر لے جانا۔ لائف جیکیٹس اور ان کا بروقت استعمال کرنا اور احتساب اور ذمہ دارای طے کرنا وغیرہ۔‘‘
عوام کچھ اور بھی کہتے ہیں: جہاں ضلع انتظامیہ اور پولیس کا کہنا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والی کشتی کو زائرین کو جزیرے تک لے جانے کا اجازت نامہ دیا گیا تھا۔ وہیں پر عوام کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ کشتی کے مالک اور ڈرائیور دیانند جادھوکی کشتی کو تہوار کے لئے ٹورزم ڈپارٹمنٹ یا کسی سرکاری محکمے کی جانب سے مسافروں کو لے جانے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ اس کی کشتی کو صرف فِٹنیس سرٹفکیٹ ملا ہوا تھا۔دیانند نے بغیر رجسٹریشن کے ہی زائرین کو مندر پر حاضری کے لئے کوڈم گڑھ جزیرے پر لے جانے کا جوکھم اٹھایا تھا۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ’دیوباغ ایڈوینچر بوٹنگ سینٹر‘ کے نام سے وہ سیاحتی کاروبار چلاتا ہے اور سیاسی سرپرستی اور اثر اندازی کی وجہ سے بلا روک ٹوک وہ بہت ساری سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔
کیا سرکاری انتظامیہ بھی ناکام رہی؟!: عوام کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ اس حادثے کے لئے پولیس اور کوسٹل سیکیوریٹی محکمہ کی ناکامی بھی ایک سبب ہے۔ خاص کرکے مقامی افراد یہ الزام لگارہے ہیں کہ کورم گڑھ تہوار کے لئے جمع ہونے والے ہجوم کو کنٹرول کرنے میں پولیس ناکام رہی ۔ زیادہ تر وہ کشتیاں جو کاروار کے کوڈی باغ علاقے سے جزیرے کی طرف نکلتی ہیں وہ چھوٹی ہوتی ہیں مگر جگہ نہ ہونے کے باوجود زیادہ تعداد میں مسافروں کو سوار کرکے لے جاتی ہیں۔ اس پر روک لگانے کے لئے کوسٹل سکیوریٹی پولیس نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ کاروار ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کے سابق چیرمین شمبھو شیٹی کا کہنا ہے کہ مقامی افراد کے علاوہ دوردراز کے علاقوں سے بھی ایک بہت بڑی بھیڑ اس تہوار میں شرکت کے لئے کاروار آتی ہے۔ان کے لئے کشتیوں پر سوار ہونے کے کوئی مخصوص مقامات مقرر نہیں ہیں۔ کچھ لوگ بیت کول بندرگاہ سے توکچھ رابندر ناتھ ٹیگور ساحل ،کوڈی باغ ندی کے کنارے ، ماجالی، سداشیو گڑھ، دیو باغ اور دیگر مقامات سے روانہ ہوتے ہیں۔
ایک الزام یہ بھی لگایا جارہا ہے: جہاں شمبھو شیٹی کا یہ کہنا ہے کہ ضلع انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے روانگی کے مقامات پہلے سے مقرر ہونے چاہئیں، وہیں پر کچھ لوگ یہ الزام لگاتے ہوئے بھی دیکھے گئے کہ کوسٹل سیکیوریٹی پولیس کے بعض افسران نے بوٹ مالکان سے رشوت لے کر پرائیویٹ کشتیوں کو مقررہ تعداد سے زیادہ مسافروں کو جزیرے کی طرف لے جانے کی چھوٹ دے رکھی تھی۔اس کے علاوہ کچھ لوگ اس حادثے کو ہندوؤں کے مذہبی نقطہ نظر سے بھی دیکھ رہے ہیں، اور اسے چاند کے ’سوپر اولف بلڈ مون‘ بننے سے جوڑ رہے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ اس المیے کوجزیرے پر موجود مندر کے دیوتا ’اوگرنرسمہا‘ کے غصے کا نتیجہ بتارہے ہیں ، کیونکہ زائرین نے مندر کے احاطے میں پاکی صفائی کا لحاظ نہیں رکھا تھا۔
بوٹ ڈوب رہی تھی، مگر دوسری بوٹ کے لوگ فوٹوز کھینچ رہے تھے: ڈوبنے والی بوٹ سے زندہ بچ نکلنے والوں نے بتایا کہ جب اُن کی بوٹ ڈوب رہی تھی اور لوگ مدد کے لئے پکار رہے تھے تو اُس وقت قریب سے پانچ تا چھ بوٹ گذر گئی، مگر اُن لوگوں نے مدد کرنے کے بجائے اپنے موبائل سے وڈیوز اور فوٹوز کھینچتے ہوئے دیکھے گئے۔ بعض لوگوں نے بتایا کہ قریب سے گذرنے والی بوٹوں کے ڈرائیور نے بھی قریب آنے کی ہمت نہیں کی شائد اُسے بھی خوف تھا کہ زائد تعداد میں لوگ اگر اُس کی بوٹ پر سوار ہوگئے تو اُس کی بھی بوٹ حادثے کا شکار ہوسکتی ہے۔
بہرحال حادثہ جو گزرنا تھا گزر چکا۔ جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں ان کے لئے ایک خوفناک خواب بن کر زندگی بھر پیچھا کرتا رہے گا۔ امید کی جانی چاہیے کہ ضلع انتظامیہ اور پولیس حادثے کی وجوہات کا پتہ لگانے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات ضرور کرے گی کہ آئندہ پھر کبھی اس طرح کا المیہ نہ ہونے پائے۔