ملپے سے گم شدہ ماہی گیر کشتی معاملہ میں نیا موڑ: نیوی کے افسران نے مانا کہ جنگی جہاز سے ہواتھا کشتی کا تصادم
منگلورو23؍جنوری (ایس او نیوز) مہاراشٹرا میں سندھو درگ کے قریب سمندر میں ماہی گیری کے دوران مچھیروں سمیت لاپتہ ہونے والی کشتی ’سوورنا تریبھوجا‘ کے تعلق سے اب ایک نیا موڑ سامنے آیا ہے اور تحقیقاتی افسران کو یقین ہوگیا ہے کہ اس ماہی گیر کشتی کی ٹکر بحریہ کے ایک جنگی جہاز’آئی این ایس کوچی‘ سے ہوئی اور ماہی گیر کشتی حادثے کا شکار ہوگئی ہے۔
اعلیٰ ذرائع سے ملنے والی رپورٹ کے مطابق 22جنوری کو کاروار میں نیوی کے سینئر افسران اور ضلع اڈپی اور شمالی کینرا کے افسران کی مشترکہ نشست منعقد ہوئی ، جس میں نیوی کے افسران نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ16دسمبر کوکاروار سے گزرتے وقت بحریہ کے جہاز ’آئی این ایس کوچی‘ کی تہہ کو کسی ٹھوس چیز سے نقصان پہنچنے کا جو معاملہ سامنے آیا تھا، وہ گم شدہ ماہی گیر کشتی سے ٹکرانے کا ہی معاملہ ہے۔ اس تعلق سے مزید شواہد اورمعلومات دو ایک دن کے اندر ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ بحریہ کے جنگی جہاز ’کوچی‘ کی تہہ کو نقصان پہنچنے کی بات پتہ چلنے کے بعد نیوی کی طرف سے کوسٹ گارڈکو اس بات کی جانچ کرنے کے لئے کہا تھاکہ کہیں کسی ماہی گیر کشتی سے جہاز کے ٹکرانے اور نقصان پہنچنے کا معاملہ تو نہیں ہوا ہے۔اس ہدایت کے پس منظر میں مہاراشٹرا کی لوکیشن میں ماہی گیری کرنے والی کشتیوں کے بارے میں کوسٹ گارڈ نے16سے20دسمبر تک رتنا گیری بندرگاہ پر تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ تمام کشتیاں محفوظ ہیں اور کسی بھی کشتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے ۔لیکن سوورنا تریبھوجا کی کشتی لاپتہ ہونے کا معاملہ اس کے بعد روشنی میں آیاتھا۔
سات ماہی گیروں سمیت لاپتہ ہونے والی کشتی کے تعلق سے مختلف زاویوں سے تحقیقات کی جارہی تھیں۔ جس میں غالب امکانات یہی بتائے جارہے تھے کہ کشتی کو کسی نے اغواکرلیاہے یا پھر وہ ہندوستانی سمندری حدود سے باہر نکل کر کسی غیر ملکی سرحد میں داخل ہوگئی ہے۔ دہشت گردوں کے ذریعے اغوا کیے جانے کا شبہ بھی بڑے زور و شور سے جتایا جارہاتھا۔اس دوران گوا کے سمندر میں بیتول کے مقام پر کشتی سے ڈیزل رِسنے کی علامات ملنے کے بعد کوسٹ گارڈ کی ٹیم نے اس بارے میں بھی تحقیقات کیں۔لیکن اب تحقیقاتی افسران اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بحریہ کے جنگی جہاز سے ٹکرانے کے بعد کشتی تباہ ہوگئی ہے۔
مگر اس نئی تھیوری کو ماہی گیر ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کے مطابق ماہی گیر کشتی میں ایسی بڑ ی تیز روشنی ہوتی ہے ، جو یہ بتاتی ہے کہ کشتی سفر کررہی ہے یا سمندر میں رکی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ الارم سسٹم بھی موجود ہوتا ہے، جس سے ایک کیلومیٹر کی دوری پر ہی پتہ چل جاتا ہے کہ ماہی گیر کشتی کہاں ہے اور کیا اس کے کسی جہاز یا دوسری ماہی گیر کشتی کی راہ میں آنے کا امکان ہے۔اس لئے جنگی جہاز کے ساتھ ٹکرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ان کا سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایسا حادثہ واقع ہوا بھی ہے تو اب تک کشتی یا ماہی گیروں کے باقیات کہیں پر بھی دستیاب کیوں نہیں ہوئے۔کشتی کے اندرتقریباً دس ہزار لیٹر ڈیزل موجود ہوتا ہے ، تصادم کی صورت میں وہ ڈیزل سمندرکی سطح پر بہتا ہواملنا چاہیے تھا۔جب ایسی کوئی ٹھوس علامت موجود نہیں ہے تو پھر جنگی جہاز سے ٹکراکر تباہ ہونے کی بات سمجھ سے باہر ہے۔