نجی اسپتالوں کے متعلق بل سدرامیا کے گلے کی ہڈی بن گئی،بیشتر کانگریس اراکین اسمبلی بل کے خلاف،استعفیٰ دینے رمیش کمار کی دھمکی
بنگلورو،14؍نومبر(ایس اونیوز؍عبدالحلیم منصور) نجی اسپتالوں اور ڈاکٹروں پر لگام کسنے کیلئے ریاستی حکومت کی طرف سے لائے جارہے مجوزہ قانون کا تنازعہ وزیر اعلیٰ سدرامیا کیلئے درد سر بن چکا ہے۔ اس معاملے پر غور وخوض کیلئے کانگریس لیجسلیچر پارٹی کا اجلاس طلب کیا جاچکا ہے۔ اس بل کے متعلق کانگریس پارٹی میں ہی اختلاف رائے کو دیکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ سدرامیا نے اس پر مباحثہ کیلئے یہ اجلاس طلب کیا ہے۔ ایک طرف وزیر صحت رمیش کمار قائم ہیں کہ نجی اسپتالوں پر لگام کسنے کیلئے یہ قانون منظور کیا جانا ضروری ہے تو دوسری طرف متعدد کانگریس اراکین اسمبلی کی رائے ہے کہ عوام کو مشکلات میں ڈال کر اس طرح کے قانون کی منظور ی نہیں کی جاسکتی۔ فوری طورپر اس سلسلے میں حالات کو قابو میں کرنے کیلئے مجوزہ قانون کو پس پشت ڈالنے کیلئے زور دیاجارہاہے۔ آج صبح وزیراعلیٰ سدرامیا نے بلگاوی کے سرکٹ ہاؤز میں سینئر وزراء سے تبادلۂ خیال کیا اور اس معاملے کو سلجھانے کیلئے ایک فارمولہ وضع کرنے کی پہل کی ۔ کانگریس کے متعدد وزراء اور اراکین اسمبلی میں نے مشورہ دیا ہے کہ مریضوں کو لاحق پریشانیوں کے مدنظر اس مجوزہ قانون کی منظوری کو فی الوقت ٹال دیاجائے اور موجودہ صورتحال برقرار رہنے دی جائے۔ میڈیکل پیشے سے وابستہ متعدد اراکین اسمبلی نے وزیر اعلیٰ سے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں مداخلت نہ کی جائے۔ دوسری طرف وزیر صحت رمیش کمار نے کہاکہ کسی بھی حال میں وہ یہ بل ایوان میں پیش کرکے رہیں گے اگر انہیں یہ بل پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تو وہ اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیں گے۔ وزیر اعلیٰ سدرامیا اس صورتحال سے نمٹنے اور رمیش کمار کو اس بات کیلئے منانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ فی الوقت اس بل کو سرد خانے میں ڈال دیا جائے۔ رمیش کمار نے اس بل کو ٹال دئے جانے کے متعلق سوالات پر کچھ بھی کہنے سے انکار کردیا، جبکہ اپوزیشن لیڈر جگدیش شٹر نے حکومت کو مشورہ دیاکہ وہ ڈاکٹروں سے تبادلۂ خیال کرے اور فوری طور پر ہڑتال ختم کرواکے مریضوں کو لاحق پریشانیوں سے نجات دلانے کیلئے اقدامات کریں۔ آج جگدیش شٹر کی رہائش گاہ کے روبرو نجی ڈاکٹروں کی ہڑتال کے متعلق اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ اسمبلی اجلاس شمالی کرناٹک میں اس لئے منعقد کیاگیا ہے کہ یہاں کے سلگتے ہوئے مسائل پر سنجیدہ بحث ہوسکے۔ اس کی بجائے اگر ریاست گیر پیمانے پر کھڑے ہونے والے مسائل میں وقت ضائع کیا جائے تو شمالی کرناٹک کے امور پر کوئی بحث نہیں ہوپائے گی۔