پدماوتی کے متعلق زبان کھولنے پر گردن تو مودی کے خلاف انگلی گنوانی پڑ ے گی: کپل سبل
نئی دہلی ،21؍نومبر ( ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا ) معروف وکیل اور ملک کے سابق مرکزی وزیر کپل سبل نے فلم پدماوتی کے تنازع میں مداخلت کرکے بھگوائیوں کو اوقات دکھادی ، انہوں نے متشدد گروپوں کے ذریعہ بالتواتر فلم ’’ پدماوتی ‘‘ کے فنکاروں کومل رہی دھمکیوں کے پیش نظر کہا کہ ملک کی یہ صورتحال ہوگئی ہے کہ کوئی بھی شخص غلط کو غلط کہے جانے کو برداشت نہیں کر رہا ہے ، انہوں نے یہ کہہ کر طنز کیا کہ اگر آپ ’’ پدماوتی ‘‘ کی حمایت کرتے ہیں تو آپ کو اپنی گردن کو خیرباد کہہ دینا چاہئے اور اگر آپ نے مودی کے خلاف کچھ لب کشائی کی تو اس کا خمیازہ بھگتنے کیلئے آپ کو تیار رہنا چاہئے ؛ کیوں کہ آپ کے اس عمل سے آپ کی انگلیاں تراش لی جائیں گی ۔ کپل سبل نے ٹوئٹ کرتے ہوئے بھگوائی خیمہ میں ہلچل مچادی انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ اگر آپ پدماوتی کی بات کریں توگردن گنوانی پڑ جائے گی اور اگر مودی کے خلاف ( ان کی غلط پالیسوں کی وجہ سے ) بولنے کی جرأت کی تو آپ کو انگلیاں گنوانی پڑ سکتی ہے اور اگر آپ نے کچھ بھی نہیں بولا تواس کے نتیجہ میں آپ کو ’’ ہندوستان ‘‘ گنوانا پڑ سکتا ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ نتیا نند کے متنازعہ اور جمہوری کش بیان کے بعد ہریانہ کے سورج وال امو نے فلم ’’ پدماوتی ‘‘ کے متعلق نہایت ہی دہشت گردانہ انعام کا اعلان کرکے خود کو مصیبتوں میں الجھا لیا ہے انہوں فلم ’’ پدماوتی ‘‘ میں کام کرنے والے فنکاروں کے سر کاٹ کر لانے والے کو خطیر رقم دینے کا اعلان کیا تھا ۔ علاوہ ازیں معروف مذہبی رہنما نتیا نند نے کہا تھا کہ میں سماج کے ہر ایک طبقہ کو مطلع کردینا چاہتا ہوں کہ غریب کا بیٹا معمولی زندگی جینے کے بعد اتنی اونچائی پر پہنچا ہے اس کے بعد انہوں نے وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان ( مودی )کی طرف اٹھنے والی انگلی کو یا تو توڑ دیں گے یا پھر ضرورت پڑی تو کاٹ دیں گے ۔ اس متنازعہ بیان پر تنقید ہونے کے بعد بھی وہ بے خوف و خطر یہ کہتے رہیں کہ جو ملک مخالف ہے ، غریب مخالف ہے اور جنہیں ترقی ہضم نہیں ہوتی وہ اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں ۔ لیکن پھر انہوں نے اپنے اس بیان کا سیاق سباق ڈھونڈ کر اس کے بلیغ معنی پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہرگز ایسا نہیں ہے ؛ بلکہ یہ محاورہ ہے ، یعنی ملک میں ایسی طاقتوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ تو نتیانند کے مطابق ملک میں وہ طاقت کون سی ہے ؟ شاید اس کا کوئی جواب مل سکے ؛ کیونکہ یہ تو اب زبانوں کو بھی مقفل کرنے کا حکم جاری ہوا کرتا ہے ، جمہوریت اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے اور جمہوریت کا ڈھول بجانے والے ببانگ دہل اسی جمہوریت کو عریاں کردینا جمہوریت کی بیش بہا خدمات بھی تصور کر رہے ہیں ۔