کلّڈکا میں چاقو گھونپنے کے معاملے میں پولیس پر گھروں میں گھس کر عورتوں پر ستم ڈھانے کا الزام؛ چار خواتین سمیت پانچ افراد اسپتال میں داخل
منگلورو15؍جون (ایس او نیوز) کلّڈکامیں ایک نوجوان کو چاقو گھونپنے کے معاملے میں تحقیقات کے نام پر پولیس کی طرف سے رات کے وقت گھروں میں گھس کر عورتوں پر ستم ڈھانے کا الزام سامنے آیا ہے جس کے بعدچار خواتین سمیت پانچ افراد آج جمعرات صبح منگلورو کے ایک نجی اسپتال میں داخل کیے گئے ہیں۔
پولیس پرزبردستی گھروں میں گھسنے، غنڈہ گردی کرنے اور عورتوں پر ظلم وستم کرنے کے الزمات کلڈکا کے منی مجلو، کے سی روڈ اور اس کے اطراف کے علاقوں میں بسنے والوں نے لگایا ہے۔ پولیس زیادتی کی شکایت کے ساتھ اسپتال میں داخل ہونے والوں کے نام نفیسہ(۵۲سال)اور اس کا فرزند مصطفی، میمونہ (۵۰سال)، رقیہ (۵۳سال)اور مریم (۵۰سال) بتائے جاتے ہیں۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے لئے رات کے وقت گھر میں گھسنے والے پولیس افسران نے عورتوں کو دھکّے دئے ، گالیاں بکیں، اور دیگر گھر والوں کی بے عزتی کی۔
میرے گھر کو نشانہ بنایا جاتا ہے: اسپتال میں داخل رقیہ کا کہنا ہے کہ کلڈکا میں کہیں بھی کچھ ہوجاتا ہے تو پولیس میرے گھر کو ہی نشانہ بناتی ہے۔ پانچ لڑکیوں اور ایک لڑکے والا میرا ایک غریب کنبہ ہے ، جسے پولیس ہمیشہ ٹارگیٹ بناتی ہے۔وہ مزید بتاتی ہے کہ رقیہ کا شوہر بیڑی سپلائی کرتا ہے جبکہ بیٹا نذیر کار ڈرائیور ہے۔ ایسے میں آدھی آدھی رات کو پولیس گھر کے دروازے پر دستک دیا کرتی ہے تو میں انتہائی خوف ودہشت کے ماحول میں جینے پر مجبور ہوگئی ہوں۔رقیہ کا کہنا ہے کہ کلڈکا چاقو حملے کے معاملے میں پولیس نے آدھی رات کو اس کے بیٹے کی تلاش میں گھر آئی تھی، وہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھا بلکہ مسافروں کو لے کر منگلورو گیا ہواتھا۔ لیکن پولیس نے ایک نہیں سنی اور زبردستی گھر کی تلاشی لی۔رقیہ کو یہ خوف کھائے جارہا ہے کہ اس کا ایک ہی بیٹا ہے اور پولیس اسی کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، اس لئے آئندہ نہ جانے کونسی انہونی بات ہوجائے۔
رات کے دو بجے پولیس کا دھاوا: کے،سی روڈ کی نفیسہ کاکہنا ہے کہ تقریباً دس پولیس والوں کی ایک ٹولی رات۲ بجے میرے گھر میں گھس گئی۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا قلفی اقبال تمہارا بیٹا ہے؟ تو میں نے کہا کہ اس نام کا کوئی بھی شخص ہمارے گھر میں موجود نہیں ہے۔پولیس والوں نے مجھے دھکا دے کر ایک طرف کیا اور اندر گھس کرمیرے بیٹے مصطفی کی گردن اور شرٹ کا کالر پکڑ کر گھسیٹ لائے۔ نفیسہ کہتی ہے کہ وہ پہلے سے دمہ کی مریض ہے اوراس دھینگا مشتی میں ایک پولیس اہلکار کا ہاتھ اس گردن پر لگنے سے چوٹ آئی ہے اور اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے۔
پاسپورٹ بھی لے گئے: جبکہ مصطفی کا کہنا ہے کہ پولیس نے کالرسے پکڑکر گھسیٹنے اورشرٹ پھاڑنے کے علاوہ اسے لاتوں سے مارا بھی ہے۔اس کے علاوہ پولیس نے گھر میں موجود وسرے بھائی کو گالیاں دیں۔وہ تین مہینے پہلے ہی بیرونی ملک سے گھر آیا ہوا ہے۔ پولیس والے اس کا پاسپورٹ اپنے حوالے کرنے کی ضد لے کر بیٹھ گئے۔ بالآخر جب ہم نے اس کا اوریجنل پاسپورٹ اور راشن کارڈ کی زیراکس کاپی ان کے حوالے کی تو وہ لوگ گھر سے باہر گئے ۔
شوہر کو اٹھانے کی دھمکی: میمونہ اس رات کی کہانی یوں بیان کرتی ہے کہ رات دس بجے گھر کے مرد مسجد سے واپس لوٹنے کا انتظار کرتے وقت اچانک تقریباً دس پولیس والوں کی ایک ٹولی ہمارے گھر کے آنگن میں جمع ہوگئی۔ ان میں سے کچھ لوگ سیدھے گھر میں گھس آئے۔اور پوچھا"جعفر۔۔۔(فحش گالی)۔۔۔بیٹاکہاں ہے"جب میں نے کہا کہ وہ اس وقت گھر میں نہیں ہے، تو پولیس نے کہا اگرنہیں بتاؤگی توپھر تمہارے شوہر کو ہم اٹھالے جائیں گے۔جب میری زچہ بیٹی نے پوچھا کہ میرے بوڑھے باپ کو کس لئے اٹھالے جاؤگے توانہوں نے اس کو دھکا دیااور کہا کہ تجھے پولیس اسٹیشن لے جانے کے لئے لیڈی پولیس کی ضرورت نہیں ہے ، ہم ہی کافی ہیں۔
مریضہ پرہیبت طاری ہوگئی: دل کے امراض کی شکار مریم کا کہنا ہے کہ آدھی رات کو گھر کے دروازے پر پولیس کی دستک سے میرے دل کی دھڑکن بہت بڑھ گئی ہے۔جب میرے شوہر نے دروازہ کھولا تو ایک سات پانچ چھ پولیس والے گھر کے اندر گھس گئے ۔ ا س کی وجہ سے مجھ پر ہیبت طاری ہوگئی۔اورسینے میں درد کے ساتھ میرا بلڈ پریشر بھی بڑھ گیا۔پولیس جب گھر میں گھس کر میرے بیٹے رشید کے بارے میں پوچھ تاچھ کرنے لگی توگھبراہٹ کی وجہ سے میں بے ہوش ہوگئی۔پولیس والے صبح چھ بجے تک گھر میں موجود تھے۔ میرا بیٹا قلی کاکام کرکے گھر کا خرچ چلارہا ہے۔ اس پر پہلے سے کوئی بھی پولیس کیس یا شکایت نہیں ہے۔پھر بھی پولیس والے اب اس کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔