نئی دہلی، 9دسمبر(ایس او نیوز/پریس ریلیز) طلاق ثلاثہ پر الہٰ آباد ہائی کورٹ نے دوران بحث جو مشاہدہ پیش کیا ہے،اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے آج ایک مرتبہ پھر کہا کہ ملکی آئین نے ہی ہمیں حق دیا ہے کہ ہم اپنے پرسنل لا پرآزادانہ طورسے عمل پیرا ہوں اورس کے تحت مذہبی و عائلی امور کو انجام دیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کو اس میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے، کیوں کہ مسلمان آئین کی روشنی میں ہی اپنے مذہب پر عمل پیرا ہیں۔مولانا موصوف نے کہا کہ وہ صرف مسلمانوں کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ دیگر اقوام(جس میں عیسائی، سکھ،قبائلی و دیگر طبقات شامل ہیں) کوبھی آئین نے پوراحق دیا ہے کہ وہ اپنے پرسنل لاکے تحت اپنے عائلی معاملات طے کریں۔
امیر جماعت مولانا عمری نے کہا کہ بیک وقت تین طلاق دینا اسلام میں ناپسندیدہ ہے اور مسلمان اس سے اجتناب کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں، لیکن ناگزیر حالات کے پیش نظر اسے یکسر نظرانداز کردینا بھی مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کا یہ تبصرہ کہ مسلم خواتین کے ساتھ زیادتیاں کی جارہی ہیں اور مسلمان اپنی عورتوں پر ظلم کرتے ہیں، نامناسب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے مرد و خواتین دونوں کو یکساں حقوق دیے ہیں۔مولانا موصوف نے ایک اہم امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ طلاق ایک ضرورت بھی ہے۔ جب ایک خاتون اپنے شوہر کی کج رویوں اور بداعمالیوں سے اس درجہ پریشان ہوجائے کہ اسے گھٹن محسوس ہو نے لگے اور اپنی زندگی اجیرن لگنے لگے تو وہ اپنے شوہر سے طلاق کی استدعا کر سکتی ہے، اسی طرح ایک مرد جب اپنی بیوی سے اس کے غلط رویے کی وجہ سے عاجز آجائے اور اسے راہ راست پر لانے کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں تو وہ اسے طلاق دے سکتا ہے۔ لیکن اسلام نے اسے جو طریقہ بتایا ہے اسی طریقے کو اختیار کرنا ہوگا۔یہ صحیح ہے کہ ایک ہی بار تین طلاق دینے کا طریقہ جہالت پر مبنی ہے، لیکن طلاق تو بہرحال پڑ جائے گی۔انہوں نے کہا کہ فریقین میں نباہ مشکل ہو تو طلاق ہی دونوں زندگیوں کو بچانے کا واحد ذریعہ ہے۔ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ بنیادی حقوق سلب کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے، نہ عدلیہ کو اور نہ مقننہ کو، کیوں کہ ملک کے ہر طبقے کو بنیادی حقوق آئین نے فراہم کیے ہیں۔
مولانا موصوف نے اس بات پر زور دیا کہ یہ امور خالص دینی ہیں۔یہ ہمارے عائلی مسائل ہیں۔ ان سے حکومت یا عدلیہ کو کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہئے۔ ہم اپنے مسائل خود حل کرنے پر قادر ہیں اور ان میں کسی کی بھی مداخلت ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جب یہ معاملہ عدالت عظمی میں زیر سماعت ہے تو پھر اسے چھیڑنے کی کوشش مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو اسے سمجھنا ہوگا۔ انہیں چاہئے کہ اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے ملک کے تمام مسلمانوں کی آواز بلند کرنے والی معتبر جماعت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ خود کو جوڑے رکھیں اور افواہوں میں قطعی نہ آئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہائی کورٹ کی یک رکنی بینچ کا مشاہدہ ہے،کوئی فیصلہ نہیں۔ اس لئے اس سلسلے میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔