سپریم کورٹ تنازعہ: چیف جسٹس سے ملنے پہنچے وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری، انتظار کے بعد واپس لوٹے
نئی دہلی، 13جنوری(ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا) ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چار جج گزشتہ دن ملک کے سب سے بڑے جج کی شکایت کرنے کے لئے میڈیا کے سامنے آپہنچے ۔ چاروں ججوں نے سپریم کورٹ میں انتظامی بے ضابطگیوں کا الزام لگایا۔ جس کے بعد اندرون ملک اتھل پتھل دیکھنے کو ملی۔آج سپریم کورٹ تنازعہ کو لے کر بڑی خبر سامنے آئی ہے۔ وزیر اعظم دفتر میں پرنسپل سکریٹری نرپیندر مشرا نے آج صبح چیف جسٹس دیپک مشرا سے ملنے کی کوشش کی، لیکن ان کی ملاقات دیپک مشرا سے نہیں ہو پائی۔ جس کے بعد پی ایم او کے پرنسپل سکریٹری نرپیندر کو چیف جسٹس کے گھر کے گیٹ پر انتظار کر کے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔پریس کانفرنس میں جسٹس چلمیشور، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن بھیم راؤ لوکر اور جسٹس کورین جوزف موجود تھے۔ اس تنازعہ پر اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے آج پھر کہا ہے کہ یہ تنازعہ حل جائے گا۔چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا سے ان چاروں ججوں نے دو ماہ پہلے ہی سات صفحات کا مکتوب لکھ کر ناراضگی ظاہر کر چکے تھے ۔ ان چاروں کے لکھے مکتوب میں ناراضگی کی وجہ بھی صاف ہوتی ہے۔ جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ یہ ہے ۔ججوں کے روسٹر بنانے کا حق یعنی یہ فیصلہ کہ کون جج یا کون سا بنچ کس کیس کی سماعت کرے گا ۔ الزام یہ بھی ہے کہ چیف جسٹس نے باقی سینئر ججوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی پسندکے بنچ کو مقدمات کی سماعت کے لیے منتخب کیا ۔ یعنی ایک طرح سے چیف جسٹس پر من مانی اور جانبدارانہ رویہ اپنانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں مکتوب میں ججوں کی تقرری کے معاملے میں میمورنڈم اور پروسیجر کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا ہے۔میمورنڈم آف پروسیجر کا مطلب یہ ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے قوانین و ضوابط ۔ الزام یہ بھی ہے کہ میمورنڈم اور پروسیجر تیار کرنے میں سینئر ججوں کے مشورہ کو نظر انداز کیا گیا ۔