جامعہ رحمانی مونگیر: جنگ آزادی کے موضوع پر سیمینار اختتام پذیر، علماء ودانشور کا آزادی کی193 سالہ جدوجہد اور دستورکی معنویت پر اظہارِخیال

Source: S.O. News Service | By Jafar Sadique Nooruddin | Published on 17th August 2018, 3:18 AM | ملکی خبریں |

مونگیر:16/اگست(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا) جامعہ رحمانی مونگیر میں یوم آزادی کی تقریب بحسن وخوبی اختتام پذیر ہوگئی، صبح آٹھ بجے پرچم کشائی کی گئی، اور بعد نماز ظہر تین بجے یوم آزادی کی جدوجہد پر سیمینار شروع ہؤا، جس کی دوسری نشست بعد نماز مغرب منعقد کی گئی، اس سیمینار میں جامعہ رحمانی کے تین اساتذہ مولانا رضاء الرحمان رحمانی، مولانامفتی ریاض احمد قاسمی اور مولانا مفتی محمد اعجاز رحمانی اور آر ڈی اینڈ ڈی جے کالج کے صدر شعبہ علم نباتات ڈاکٹر پروفیسر شبیر حسن صاحب کی تقریریں ہوئیں، جس میں آزادی کی جدوجہد کی ۱۹۳؍ سالہ داستان تاریخی حوالوں کی روشنی میں اور دستور ہند کی معنویت اور مسلمان اور مسلم اداروں کے لیے اس کی اہمیت پر پورے شرح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالی گئی۔اس موقعہ پر مولانا رضاء الرحمان رحمانی نے کہا کہ آزدی کی طرف ہندوستانیوں کا دھیان سب سے پہلے ۱۷۳۱ء میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دلایا اور انہوں نے لوگوں کی فکری آبیاری کی، اس کے بعد ۱۷۳۵ء میں ان کے شاگرد حضرت شاہ عبد العزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوی دے کر انگریزوں کے خلاف جہاد کے لیے لوگوں کو ابھارا، جس کے نتیجہ میں مشہور وہابی موومنٹ تحریک چلی، جو علماء صادق پور کے ذریعہ تقریباً سو سال تک چلائی گئی، حضرت سید احمد شہید اور حضرت شاہ اسماعیل شہید کی مسلح جدوجہد بھی اسی فکر ولی اللہی کا ہی نتیجہ ہے، جو ان حضرات کی شہادت پر ۱۸۳۱ء میں بالاکورٹ میں ختم ہوگئی، انہوں نے کہا کہ ان علماء کی ذہن سازی کا نتیجہ ہے کہ ۱۷۵۴ء میں نواب بنگال علی وردی خان نے انگریزوں کو اس ملک سے بھگانے کے لیے فورٹ ولیم پر حملہ کیا، یہ تاریخ میں انگریز سے پہلی مسلح جدوجہدہے ،جو جیت پر ختم ہوئی، ورنہ تاریخ گواہ ہے، کہ ۱۸۵۷ء تک جتنی بھی مسلح جدوجہد ہوئی وہ ہندوستانیوں کی ہار پر ختم ہوئی، انہوں نے کہا کہ تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ۱۸۵۷ء کی مسلح جدوجہد آخری جدوجہد ہے، نہ کہ پہلی مسلح جدوجہد ، ہاں البتہ۱۸۵۷ء کی آخری جدوجہد ملک کے طول وعرض میں ہونے والی متعددجدوجہد کے نیتجہ میں آخر میں ضرورسامنے آئی، اس سے پہلے ۱۷۵۷ء میں بنگال کے سراج الدولہ ۱۷۶۳ء میں بنگال کے ہی میر قاسم اور ۱۷۶۴ء میں میر قاسم کے ساتھ نواب اودھ شجاع الدولہ اور دہلی کے بادشاہ شاہ عالم ثانی کی مشترکہ جدوجہد ہوئی، اسی طرح ۱۷۶۷ء سے لے کر ۱۷۹۹ء تک جنوبی ہند میں حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی جدوجہد ہے،اسی طرح ۱۷۷۲ء تا ۱۸۱۸ء میں مرہٹوں کی جدوجہد، ۱۷۷۴ء روہیل کھنڈکے نواب حافظ رحمت خان کی جدوجہد۱۷۸۵ء بھاگلپور میں تلکا مانجھی کی جدوجہدمشہور ہے۔ مولانا نے کہا کہ مستند کتابوں میں ۱۸۵۷ء سے پہلے انیسویں صدی میں اس کی ابتداء سے ہی انگریزوں کے خلاف کئی مسلح جدوجہد نظر آتی ہے، جیسے،۱۸۰۴ء تا۱۸۱۷ء اڑیسہ میں پائکوں کی مسلح جدوجہد ، ۱۸۱۴ء سے ۱۸۱۷ء تک علی گڈھ کے تعلق داروں کی مسلح جنگ، ۱۸۰۹ء سے ۱۸۲۴ء تک ہر یانہ میں جاٹوں کی تحریک ۱۸۴۵ء میں پنجاب میں سکھوں کی جدوجہد ۱۸۵۵ء میں سدھو اور کان ہو کی سرکردگی میں بیربھوم ، مر شد آباد، راج محل اور بھاگلپور میں سنتالیوں کی مسلح کئی جدوجہد ہے، جس نے انگر یزوں کے چھکے چھڑا دیئے، اسی طرح۷ ۱۸۵ء سے قبل بہار کے آرہ میں ویر کنور سنگھ کی جدوجہد ہے جو بے مثال ہے، مولانا نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ تاریخی سچائی پر پر دہ ڈالا گیا، اور۱۸۵۷ء کی مسلح جدوجہد کوآخری کے بجائے پہلی جدوجہد قرار دے کر پچھلی تمام جدوجہدکو پردۂ خفا میں ڈالنے کی کوشش کی گئی،یاد رکھئے، تسلسل کے ساتھ ہونے والی اتنی عظیم جدوجہد کو نظر انداز کر کے۱۸۵۷ء کی جدوجہد کو پہلی جدوجہد قرار دینا تاریخی حقائق کو جھٹلا نا ہے، اور اس کے پیچھے مسلم اور دلت مخالف سونچ نظر آتی ہے، اس لیے کہ مذکورہ جدوجہد وں کے بیشتر ہیرو کا تعلق مسلمان اور دلتوں سے ہے، انہوں نے کہا کہ ایک تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں حضرت مولانا محمدولی صاحب رحمانی کا شکر گذارہوں کہ انہوں نے اس تاریخی جھوٹ سے پردہ اٹھایا او راپنی ایک مختصرمگر بیش قیمت تحریر سے آنکھیں کھول دیں، صحیح بات تو یہ ہے کہ انہوں نے اس کے ذریعہ بڑا قلمی جہاد کیا ہے، ان کی یہ تحریر ایسے وقت میں سامنے آئی ، جب سرکاری تقریبات کے ذریعہ تاریخی جھوٹ پر مہر لگائی جارہی تھی، جس کے خلاف ایک طرف سکھوں کی طرف سے پارلیمنٹ میں چرنجیت سنگھ اٹوال نے آئینہ دکھانے کی جرأت دکھائی، تودوسری طرف مسلمانوں کی طرف سے حضرت مولانا محمد ولی صاحب رحمانی نے قلمی جہاد کیا جب کہ اسوقت صحت کے لحاظ سے وہ لکھنے کے قابل نہیں تھے ، بعد میں انہوں نے دو مرتبہ اس موضوع پر رحمانی فاؤنڈیشن مونگیر کے تحت سیمینار بھی کرایا اور ملک کے ممتاز تاریخ دانوں کو جمع کرکے اس سچائی کی آواز کو مضبوطی پہونچائی۔مولانا مفتی ریاض احمد صاحب قاسمی نے کہا کہ ۱۸۵۷ء کے عظیم انقلاب کے بعد بھی تحریکات آزادی جاری رہیں، اسی زمانہ میں علماء دیوبند نے شاملی میں انگریزوں کے خلاف جنگ کی، جس میں حضرت حافظ ضامن شہید ہوئے، اور حضرت مولانامحمد قاسم صاحب نانوتوی زخمی ہوئے، لیکن افسوس ہے کہ علماء دیوبند کی یہ بڑی جدوجہد آزادی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے، انہوں نے تحریک ریشمی رومال کا بہت تفصیل سے ذکر کیا، اور بتایا کہ اگر وقت پر اس کا راز افشا نہ ہوتا، تو ہمارا ملک انگریزوں کے ناپاک وجود سے کب کا پاک ہوگیا ہوتا۔مولانا مفتی محمد اعجا زرحمانی نے ۱۹۲۰ء سے لے کر دیش کی آزادی تک کی چلنے والی تحریکات کا نوٹس لیا، خاص طور سے انہوں نے خلافت کمیٹی ، ہندوستان چھوڑو تحریک، ستیہ گرہ تحریک ،ترک موالات ، سول نافرمانی ،گول میز کانفرنس وغیرہ کا ذکر کیا، اور بتایا کہ ان تحریکات میں دوسرے وطنی بھائیوں کے ساتھ مسلمانوں نے کس بے مثال قربانیوں کا مظاہرہ کیا ہے۔آر دی اینڈ ڈی جے کالج کے شعبہ نباتا ت کے صدر ڈاکٹر شبیر حسن نے آزادی سے تین سال قبل کے حالات اوردستور ہند کی معنویت اور پہلی کابینہ جیسے موضوعات پر کھل کر اپنی باتیں رکھیں، انہوں نے کہا کہ آزادی کی نعمت طویل جدوجہد کے بعد حاصل ہوئی، اور اس میں مسلمانوں نے اپنی بڑی قربانیاں پیش کیں، اور غلامی سے نجات ملی، مگر غلامی کی اس ڈیڑھ سو سالہ طویل مدت کو فرقہ پرست لوگ اب ایک ہزار سالہ مدت قرار دیتے ہیں، اور مسلمانوں کے حکمرانی کے دور کو بھی غلامی کا دور کہتے ہیں، جوان کے غلامانہ ذہنیت کی علامت ہے، انہوں نے دستور ہند کو اس ملک کے باشندوں کے لیے بہت موزوں مناسب اور ہر لحاظ سے مفید بتاتے ہوئے کہا کہ اس میں ان باتوں کاالتزام کیا گیا ہے کہ ہر اکائی اپنے آپ کو مذہب ، تہذیب اور کلچر کے لحاظ سے محفوظ سمجھے، انہوں نے کہا کہ دستور ہند کو لچیلا بنایاگیا ہے، اس میں ترمیم کی گنجائش رکھی گئی ہے، مگر اس کے بنیادی حقوق اس زمرہ سے باہر ہیں، آپ طلبہ جو مذہبی تعلیم حاصل کررہے ہیں، مسلم پرسنل لا بورڈ جو مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے اور جو مسلم ادارے قائم ہیں اور کام کررہے ہیں، ان سبھوں کو آئینی تحفظات حاصل ہیں، مگر یہ بھی سچائی ہے کہ فرقہ پرست طاقت اس ملک کوہندو راشٹربنانے کے لیے کوشاں ہے، جب کہ دستور ہند میں جو التزامات رکھے گئے ہیں،سیکولرزم اس کی بنیاد ہے، جس کی رو سے اس ملک سے جمہوریت کوختم نہیں کیا جاسکتا، پروفیسر صاحب نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ آپ کے سامنے مجھے اپنی معلومات رکھنے کاموقعہ ملا ہے، آپ سے گذارش ہے کہ اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں اچھی طرح سمجھیں، اور دستور نے جو آپ کو حق فراہم کیا ہے، اس کی روشنی میں اپناحق لینے والے بنیں، انہوں نے اس طرح کی مجلس کے قیام کے لیے حضرت مولانا محمدولی صاحب رحمانی کی کوششوں کو بھی سراہا، اور کہا کہ اس طرح کے پروگرام سے بیشک طلبہ بھر پور صلاحیتوں کے مالک بنیں گے۔سیمینا رکی دونوں نشستوں کی کامیاب نظامت جامعہ رحمانی کے ناظم تعلیمات مولانامحمد خالد صاحب رحمانی نے کی،نشستوں کا آغاز تلاوت کلام پاک اورنعت سے ہؤا، اور اختتام دعاء پر ہوا۔

ایک نظر اس پر بھی

ممبئی میں ڈی آر آئی کی بڑی کارروائی، 10 کروڑ روپئے کا غیر ملکی سونا ضبط، چار گرفتار

ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس (ڈی آر آئی) نے ممبئی میں سونے کی اسمگلنگ کے ایک بڑے ریکیٹ کا پردہ فاش کیا ہے۔ ایک سرچ آپریشن کے دوران ڈی آر آئی نے 10.48 کروڑ روپئے کا سونا، چاندی، نقدی اور کئی مہنگے سامان ضبط کیے ہیں جبکہ دو افریقی شہریوں کے ساتھ چار لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

کانگریس کے منشور سے مودی گھبرا گئے ہیں، ذات پر مبنی مردم شماری کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی: راہل گاندھی

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے دہلی کے جواہر بھون میں ’ساماجک نیائے سمیلن‘ سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے پی ایم مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ خود کو ’دیش بھکت‘ کہتے ہیں وہ 90 فیصد لوگوں کے لیے ’نیائے‘ (انصاف) کو یقینی بنانے والی ذات ...

اجیت پوار اور ان کی اہلیہ کو مہاراشٹر اسٹیٹ کوآپریٹو بینک گھوٹالہ کیس میں ’کلین چٹ‘ مل گئی

 مہاراشٹر کے ڈپٹی سی ایم اجیت پوار اور ان کی اہلیہ سنیترا کو بڑی راحت ملی ہے۔ اقتصادی جرائم ونگ نے مہاراشٹر اسٹیٹ کوآپریٹیو بینک گھوٹالے میں ان دونوں کو کلین چٹ دے دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے بھتیجے روہت پوار سے وابستہ کمپنیوں کو بھی کلین چٹ دے دی گئی ہے۔

ای وی ایم-وی وی پیٹ معاملہ: ’ڈیٹا کتنے دنوں تک محفوظ رکھتے ہیں‘؟ الیکشن کمیشن سے سپریم کورٹ کا سوال

ای وی ایم- وی وی پیٹ معاملے پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے مزید وضاحت طلب کی ہے۔ ان وضاحتوں پر عدالت نے الیکشن کمیشن کے عہدیدار سے دوپہر 2 بجے تک جواب دینے کے لیے کہا ہے۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے دریافت کیا کہ مائیکرو کنٹرولر کنٹرول یونٹ میں ہے یا وی وی ...

کانگریس و دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی شکایت کے بعد الیکشن کمیشن کا پی ایم مودی کے بیان کی جانچ کا اعلان

راجستھان کے بانسواڑہ میں پی ایم مودی کے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان پر ملک و بیرونِ ملک ہو رہی شدید تنقید کے بعد الیکشن کمیشن نے اس کے جانچ کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی تقریر سے متعلق شکایت موصول ہوئی ہیں اور وہ شکایات کمیشن کے زیر غور ہیں۔ ...