عراقی فوج کی تَل عَفر پر چڑھائی
بغداد،20اگست(ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا)عراق کی فوج نے اپنی بنیادی جنگی حکمت عملی اور منصوبہ بندی مکمل کرنے کے بعد تَل عَفر کے شہر کا قبضہ چھڑانے کی فوجی مہم شروع کر دی ہے۔ عراقی فوج کو ملکی ایئر فورس کے جنگی طیاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔ تَل عَفر پر قابض جہادیوں کو پچھلے کئی ایام سے عراقی جنگی ہوائی جہاز نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عراقی فوج کے جنگی حکمت عملی میں امریکی فوجی ماہرین بھی زمینی فوج کے ہمراہ ہیں۔عراقی فوج کی سیاہ وردی میں ملبوس وزیراعظم حیدرالعبادی نے اپنے ملک میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے زیر کنٹرول آخری شہر تَل عَفر کا قبضہ چھڑانے کے عسکری آپریشن کے شروع کرنے کا اعلان کیا۔ فوجی آپریشن کے شروع کیے جانے پر عراقی وزیراعظم نے جہادیوں کو کہا ہے کہ اُنہیں ہتھیار ڈالنے یا موت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ اس نئی عسکری مہم سے عراق میں داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گا جس سے وہاں پیدا انسانی المیہ مزید گھمبیر ہو جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حملے سے ہزاروں افراد کو اندرون ملک مہاجرت کا سامنا ہو گا۔ عراقی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تَل عَفر کی اکثریتی آبادی پہلے ہی داعش کے جہادیوں کے ظلم و جبر سے بچنے کے لیے راہِ مہاجرت اختیار کر چکی ہے۔
موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔شیعہ اکثریتی آبادی والے اس شہر پر عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے سن 2014 میں قبضہ کیا تھا۔ عراقی فوج نے رواں برس جولائی میں موصل کا مکمل قبضہ چھڑا لیا تھا۔ موصل شہر میں سے جہادیوں کو نکالنے کی مہم اکتوبر سن 2016 میں شروع کی گئی تھی۔شام اور موصل کے درمیان قائم شاہراہ داعش کے جہادیوں کی نقل و حرکت اور اہم ترین سپلائی روٹ تصور کیا جاتا ہے۔ تَل عَفر دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خود ساختہ خلافت کے مرکز الرقہ سے موصل کی جانب سفر کرنے والے جہادیوں کاایک اہم پڑاؤ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ شہر موصل کے مغرب میں شامی سرحد سے تقریباً 150کلومیٹر کی دوری پرواقع ہے۔