دیہاتوں کے ندی نالوں پر بانس اور لکڑیوں سے بنے جھولتے ہوئے پُل عوام کے لیے خطرے کی گھنٹیاں؛ عوام اپنے مسائل کواپنے ہی وسائل کے مطابق حل کرنے اور خطرات بھری زندگی بسر کرنے پر مجبور
بھٹکل17جولائی(ایس او نیوز) جدیدٹیکنالوجی کے ساتھ ہمارے ملک اورشہروں کی ترقی تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ جب ہم ملک کی ترقی کی بات کرتے ہیں توصرف شہروں کی ترقی سے کام نہیں چلے گا۔ بلکہ قصبوں اور دیہاتوں کی ترقی بھی اتنی ہی ضروری ہے۔جب تک شہروں اوردیہاتوں کے مابین رابطہ بہتر نہیں ہوتا تب تک عوام کی زندگی میں حقیقی معنوں میں ترقی ہو نہیں سکتی۔
لیکن افسوسناک پہلو یہ کہ آج کے ترقی یافتہ اور ہائی ٹیک دور میں بھی ہمارے ملک کے بیشتر دیہات ایسے ہیں جہاں انسانوں کو ایک پرسکون اورراحت بھری زندگی گزارنے کے لئے بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں اور یہ دیہات شہری ترقی سے ابھی ابھی کوسوں دورہیں۔مثال کے طور پر ضلع شمالی کینرا کے ملناڈ کے پہاڑی علاقے میں واقع دیہاتوں کو لیجیے۔سرسی،سداپور،یلاپوراورجوئیڈا جیسے تعلقہ جات میں کئی مقامات پر چھوٹے چھوٹے گاؤں اور دیہاتوں کو شہروں سے جوڑنے والے پکّے اور مضبوط پُل ابھی تک تعمیر نہیں ہوئے ہیں۔یہاں کے ندی نالوں پر بانس اور لکڑیوں سے بنے کمزور اور تنگ پُل ہی ایک گاؤں کو دوسرے گاؤں سے جوڑنے کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں جن پر چلنااور ندی نالے پار کرنا خاص کر برسات کے موسم میں جان جوکھم میں ڈالنے کے برابر ہوتا ہے۔ یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ گاؤں سے شہروں میں آنے کے لئے بچے تو بچے ، بڑے اور بزرگ افراد بھی اپنی جان ہتھیلی پر لے کر ان پلوں کو پار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک بریج ضلع اُترکنڑا کے سرسی میں بھی واقع ہے، یہاں کے بالور گاؤں میں ایک ایسا جھولتا ہواپیدل پُل ہے جو اگناشنی ندی کے اوپر بنایا گیا ہے۔ یہ پُل کیندیگے توٹا اور انچلّی نامی دیہاتوں کو جوڑتا ہے۔یہاں پر 40سے زیادہ خاندان کے 200سے زیادہ افراد بستے ہیں۔بارش کا موسم شروع ہونے پر ان لوگوں کو اپنے گاؤں سے شہروں میں آنے کے لئے صرف اسی پُل کا سہارا لینا پڑتا ہے۔بانس سے بنا ہوا یہ پل اس گاؤں کے لوگوں نے خود ہی اپنے طور پر تیار کیا ہوا ہے۔اور اس کی دیکھ ریکھ اور مرمت کاکام بھی مقامی دیہاتی ہی کیا کرتے ہیں۔ چاہے 80سال کے ضعیف العمر افراد ہوں یا پھر آنگن واڈی جانے والے ننھے منے معصوم بچے سب کو اسی پل پر سے گزرنا ہوتا ہے۔ گھروں سے ذرا دوری پر واقع بچوں کے اسکول ، پنچایت دفتر یا پھر شہر کی طرف جانے کے لئے اس خطرناک پل کو پار کرنے کے سوا عوام کے پاس دوسرا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔حالانکہ برسات کی وجہ سے ندی میں سیلابی کیفیت ہونے پر پانی پل پر سے ہوکر گزرتا ہے اور اسے پار کرنا انتہائی خطرناک بات ہوتی ہے، کیونکہ ذرا سا پیر پھسلا نہیں کہ آدمی کا ندی میں بہہ جانا اور غرقاب ہونا یقینی ہے۔ لیکن دیہاتی عوام جان پر کھیل کر اس پل پر سے گزرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں۔
الیکشن کے دنوں میں اور اس کے بعد اقتدار پر آنے والے سیاست دان ملک کی ترقی کے لیے سب سے پہلے دیہاتوں کی ترقی کی باتیں تو بہت کیا کرتے ہیں۔ بھاشن میں دیہی عوام کی فلاح و بہبود کی اسکیموں کا بڑا تذکرہ ہوتاہے ، لیکن کچھ زمینی حقائق ایسے ہوتے ہیں کہ حکام اور سیاست دان ان کی طرف سے آنکھیں موند کر بیٹھ جاتے ہیں اوربے چارے عوام اپنے مسائل کو اپنے ہی وسائل کے مطابق حل کرنے اورخطرات بھری زندگی بسر کرنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔