کرکوک پر کنٹرول کے باوجود متنازع علاقوں کی حیثیت تبدیل نہیں ہوئی: امریکا
واشنگٹن،21؍اکتوبر(ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا )امریکی وزارت خارجہ نے شمالی عراق میں پرشدد واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عراقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کرکوک کے نزدیک اپنی نقل و حرکت پر روک لگائے جو بغداد اور عراقی کردستان کی حکومتوں کے درمیان متنازع علاقہ ہے۔امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ "کسی بھی غلط فہمی یا محآذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے ہم مرکزی حکومت سے پْرسکون رہنے اور متنازع علاقوں میں اپنی وفاقی فورسز کی نقل و حرکت پر روک لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور خاص طور پر ان اقدامات پر زور دیتے ہیں جن پر کردستان حکومت کے ساتھ رابطہ کاری ہوئی ہے۔ترجمان نے مزید کہا کہ "ہم عراقی کرد شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے وزیراعظم حیدر العبادی کی وفاقی فورسز کو دی گئی ہدایات پر مطمئن ہیں۔ البتہ یہ بات واضح رہے کہ عراقی فورسز نے جن متنازع علاقوں پر کنٹرول حاصل کیا ہے ان کی حیثیت اب بھی متنازع ہے۔امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان کے مطابق متنازع علاقوں پر وفاقی حکومت کے پھر سے کنٹرول حاصل کرنے سے ان علاقوں کی صورت حال پر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور عراقی آئین کے مطابق حل تلاش کیے جانے تک یہ متنازع ہی رہیں گے"۔دوسری جانب پیشمرگہ فورسز نے کرکوک صوبے سے اپنے مکمل انخلا کی تصدیق کی ہے۔ وزارتِ پیشمرگہ کے سکریٹری جنرل جبار یاور نے جمعے کے روز بتایا کہ پیشمرگہ فورسز مکمل طور پر کرکوک کی حدود سے باہر ہیں اور جھڑپیں التون کوبری قصبے سے انخلا سے پہلے واقع ہوئی تھیں۔ یاور کے مطابق پیشمرگہ فورسز عراقی فوج کے ساتھ تصادم سے بچنے کے لیے بعض علاقوں سے نکل گئی۔یاد رہے کہ 25 ستمبر کو عراقی کردستان میں ہونے والے ریفرینڈم کے بعد اربیل اور بغداد حکومتوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ بغداد میں مرکزی حکومت نے "سرزنش" سے متعلق اقدامات کرتے ہوئے کردستان کے دونوں ہوائی اڈوں کی فضائی حدود کو بند کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ ریفرینڈم منعقد کرانے کے ذمے داران کے تعاقب کی بھی دھمکی دی گئی۔عراقی آئین کے آرٹیکل (140) کے مطابق کرکوک، نینوی، دیالی اور صلاح الدین صوبوں کے علاقے متنازع حیثیت کے حامل ہیں۔ سال 2014 میں داعش تنظیم کے عراق پر حملے کے نتیجے میں جنم لینے والی انارکی کی فضاؤں میں کردستان حکومت نے ان متنازع علاقوں پر قبضہ جما لیا تھا.