کوئی صورت نظر نہیں آتی !
کوئی اور بحران ہوتا تو ممکن تھا کہ عوام پر اتنا اثر انداز نہ ہوتا جتنا کہ نوٹوں کا بحران اثر انداز ہورہا ہے۔ جب عوام کے ہاتھوں میں پیسہ ہی نہیں ہوگا تو کس بازار میں رونق رہے گی اور کون سی انڈسٹری چلے گی ؟ ہمارے خیال میں مودی حکومت نے اثرات اور نتائج پر غور کئے بغیر اس منصوبے کو نافذ کردیا ہے۔ لیکن اب جبکہ عوامی پریشانیاں اظہر من الشتمس ہیں، وزیر اعظم ، عوامی مسائل اور مصائب اور ان سے پیدا شدہ بے چینی کو سمجھے بغیر بیانات دے رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے اپنی حکومت اور پارٹی کے اراکین سے کہا ہے کہ وہ اپنے دفاع کی کوشش نہ کریں بلکہ خود کو اس اعتماد کے ساتھ پیش کریں کہ ’’نوٹ بندی ‘‘ بہتری مستقبل کیلئے ہے ۔ بہتر مستقبل کی اُمید کس برتے پر کی جائے یہ اُنہوں نے نہیں بتایا لیکن اظہار اعتماد کا حربہ وہ خود بھی آز مارہے ہیں۔ اُن کا یہ جملہ کہ ’’غریب چین کی نیند سورہا ہے او امیر پریشان ہے، نیند کی گولیاں کھانے پر مجبور ہے‘‘ زمینی حقائق کو خاطر میں لائے بغیر خالی خولی اعتماد ظاہر کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت ملک میں کوئی غریب یا عام آدمی ایسا نہیں جو چین کی نیند سورہا ہو۔ دکاندار پریشان گاہک پریشان، بینک ملازمین پریشان بینک صارفین پریشان ، مریض پریشان اسپتال کا عملہ پریشان وغیرہ کسی کو راحت نہیں ہے۔ ہر شخص حکومت کے فیصلے کی مذمت ہی کررہا ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم نجانے کس رپورٹ کی بنیاد پر غریب آدمی کو مطمئن اور امیر کو فکر مندر قرار دے رہے ہیں۔ ’’کڑک چائے‘‘ غریبوں کو پسند ضرور ہے لیکن نوٹ بندی کا ’’کڑک ‘‘ فیصلہ ان کے گلے کے نیچے نہیں اُتر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے وزیر اعظم کسی اور ملک کی کہانی سنارہے ہوں۔ ہندوستان کی کہانی تو ایسی نہیں ہے۔ یہاں تو اے ٹی ایم اور بینکوں کی طویل قطاریں ، جو پانچوں چھٹے دن بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں، اُس داستان غم کی طرح ہے جس میں نئے نئے موڑ روزانہ آرہے ہیں اور جو ختم ہونے کے قریب بھی نہیں پہنچی ہے۔
پریشانی اور فکر مندی میں اضافہ اس لئے بھی ہورہا ہے کہ نوٹ بحران سے پیدا شدہ مسائل کے ختم ہونے کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اے ٹی ایم کی قطاریں ابھی کئی ہفتے معمول بنی رہیں گی کیونکہ جاری شدہ نئے نوٹوں کیلئے اے ٹی ایم مشینوں میں تبدیلی ناگزیر ہے ۔ ملک بھر میں 2؍ لاکھ 2؍ ہزار اے ٹی ایم ہیں جہاں کے 4؍ لاکھ ٹرے اور کیسیٹ بدلنے ضروری ہیں کیونکہ 5؍ سو اور 2؍ ہزار کے نئے نوٹ سائز میں سابقہ نوٹوں سے مختلف ہیں۔ اے ٹی ایم میں نصب مشینوں میں وہ ٹرے اور کیسیٹ نہیں ہیں جو نئے نوٹوں کے مواقف ہوں۔ کب ان مشینوں میں یہ انتظام ہوگا یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ اس عمل کی انجام دی کیلئے صرف 3؍ ہزار انجینئر ہیں۔ ہرانجینئر رات دن مصروف کار رہے تب بھی آئندہ کئی ماہ تک اے ٹی ایم مشینوں کا نئی نوٹوں کے موافق ہوجانا ممکن نہیں۔ یہ مشینیں کسی فیکٹری میں رکھی ہوئی نہیں بلکہ پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ انجینئروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرنا پڑیگا۔ مختصر یہ کہ پریشانی کے دن محدود نہیں لا محدود ہیں ۔ اس دوران عام آدمی تو ہلکان ہوگا ہی، مارکیٹس کا چہرا بھی اُترا ہوا ملے گا ، فیکٹریوں کی نبض بھی سست ہوجائیگی ، لین دین اور خرید و فروخت کی محفلیں بھی ویران رہیں گی ، سماجی تقریبات کی رونقیں بھی ماند پڑ جائینگی اور یہ سب کچھ محض اس لئے ہوگا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ عوامی دشواریوں کو سمجھے بغیر قطعی یک رُخے انداز میں کیا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ حکومت کو اس کی غلطی کا احساس دلایا جائے۔ دیکھنا ہوگا کہ آج پارلیمنٹ میں اپوزیشن کتنے دم خم کا مظاہر ہ کرتی ہے ۔