انڈین مجاہدین مقدمہ (گجرات) کیا واقعی بہت سارے گواہوں کی ضرورت ہے ؟ سپریم کورٹ کا استغاثہ سے سوال
ممبئی،18؍اپریل(ایس او نیوز؍پریس ریلیز) انڈین مجاہدین (گجرات ) مقدمہ میں ماخوذ گذشتہ ۹؍ سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقیددو مسلم نوجوانوں کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے گذشتہ دنوں سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ نے استغاثہ سے سوال کیا کہ آیاواقعی انہیں ہزاروں گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے ؟سپریم کورٹ نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمہ میں ڈھائی ہزار سے زائدگواہوں کو نامزد کیا گیا ہے جس میں کچھ ہی ایسے گواہ ہیں جن کی گواہی معنی رکھتی ہے۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کے توسط سے سپریم کورٹ میں ملزمین عتیق الرحمن عبدالحکیم خلجی اورعمران احمد سراج احمد (کوٹا راجستھان) کی ضمانت پر رہائی کے لئے گذشتہ ماہ عرضداشت داخل کی گئی تھی جس کی سماعت سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس اشوک بھوشن کے سامنے عمل میں آئی جس کے دوران جمعیۃ علماء کے وکلاء سابق ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایڈوکیٹ امریندر شرن اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ گورو اگروال نے عدالت کو بتایا تھا کہ اس معاملے میں ابتک ایک ہزار سے زائد سرکاری گواہوں کی گواہی مکمل ہوچکی ہے لیکن ایک بھی سرکاری گواہ نے ملزمین کے خلاف گواہی نہیں دی ہے جس پر دونوں جسٹس صاحبان نے زبانی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ استغاثہ کوالیٹی کی بجائے کوانٹیٹی (تعداد) پر زیادہ یقین رکھتا ہے۔
اسی دوران دو رکنی بینچ نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے سوال کیا کہ گجرات پولس کی نمائندگی کون کررہا ہے ؟ اور کیا واقعی اتنے گواہوں کی انہیں ضرورت ہے جس پر تشار مہتا نے کہا کہ اس معاملے میں استغاثہ پہلے ہی 257 گواہوں کو ڈراپ کرچکا ہے یعنی کہ انہیں گواہی دینے سے روک دیا ہے لیکن پھر بھی ایک بڑی تعداد میں سرکار ی گواہوں کو گواہی دینا باقی ہے ۔ فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد عدالت نے معاملے کی سماعت ۳؍ مئی تک ملتوی کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔
سپریم کورٹ کے ججوں کے تبصرہ پر اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے جمعیۃ علماء مہاراشٹرقانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے ممبئی میں اخبار نویسوں کو بتایاکہ سپریم کورٹ کا تبصرہ اس بات کی جانب اشارہ کررہا ہیکہ استغاثہ دہشت گردانہ معاملات سمیت دیگر معاملات میں حد سے زائد گواہوں کولیا جاتا ہے جس کی وجہ سے معاملے کی سماعت دسیوں سال تک چلتے رہتی ہے اور پھر آخیر میں یہ ہوتا ہیکہ ملزمین باعزت بری کردیئے جاتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ اگر استغاثہ شروع میں ہی مٹیرئیل ویٹنیس(کام کے گواہوں)کو پیش کرے تو معاملے کی سماعت جلد مکمل ہوسکتی ہے اورملزمین کو وقت پر انصاف حاصل ہوسکتا ہے ۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا مقدمہ ہے جس میں ۳۵؍ ایف آئی آر کو یکجا کرکے ایک ہی عدالت میں اس کی سماعت کی جارہی ہے جس میں ابتک ۲۸؍ سو سرکاری گواہوں میں سے ۱۰۰۰؍ سرکاری گواہوں سے مقدمہ کا سامنا کررہے ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء کے وکلاء نے جرح کرلی ہے ۔
گلزار اعظمی نے مزید بتلایا کہ گجرات مقدمہ میں ماخوذین میں سے ۱۳ ، ملزمین کو ممبئی انڈین مجاہدین مقدمہ اور ۷ ملزموں کو دہلی انڈین مجاہدین مقدمہ میں ماخوذ بتا یا گیا ہے نیز اسی طرح انہیں ملزمین کو حیدار آباد اور بنگلور کے بھی بم دھماکوں کے سلسلے میں ماخوز بتایا گیا ہے جمعیۃ علماء ملک کے دیگر صوبوں میں بھی ملزمین کے مقدمات کی پیروی کررہی ہے لیکن ملزمین کی عدم دستیابی کی وجہ سے احمد آباد کو چھوڑ کر دیگر شہروں کے مقدمات سست روی کا شکا رہیں ۔