امیر شریعت سادسؒ ، نقوش و تاثرات :عروس جمیل در لباس حریر ۔۔۔۔۔ آز: فضیل احمد ناصری القاسمی

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 7th April 2017, 1:01 AM | اسپیشل رپورٹس | اسلام | ان خبروں کو پڑھنا مت بھولئے |

امارت شرعیہ(بہار ،اڑیسہ وجھار کھنڈ)ہندوستان کے ان سرکردہ اداروں میں سے ہے،جن پر اہل اسلام کو ہمیشہ فخر رہا۔یہ روز اول سے ہی ملت اسلامیہ ہندیہ کی قیادت بہتر انداز میں کرتی رہی ہے، یہ ادارہ’’ مفکر اسلام‘‘ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃاللہ علیہ کے خوابوں کی تعبیر ہے، اس کاقیام 1921ء میں ہوا۔ اس کی تاسیس اور کارناموں پر اب صدی گزرنے کو ہے۔ حق جل مجدہ نے اس عظیم ادارے سے عظیم الشان کام لئے، اس کافیضان ہنوز جاری اور اس کا جلوہ آج بھی برقرار ہے۔برطانوی اقتدار والے ہندوستان جیسے مسلم اقلیتی ملک میں امارت اور وہ بھی شرعی امارت کا خواب دیکھنا بھی بڑی بات تھی، چہ جائے کہ اسے شرمندہ تعبیر کرلینا۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد صاحب نے صحرا میں چاہ کنی کا نادر المثال کا رنامہ انجام دیا۔

امارت شرعیہ کادائرہ کار اگرچہ چند صوبوں تک محیط ہے، لیکن اس کے اثرات ملک وبیرون ملک تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں سے کئی ایسے کارنامے انجام پائے جن کی تعریف وتوصیف کے ساتھ تقلید بھی کی گئی۔ بلند نگاہ شخصیات اور کوہ قامت ہستیوں کے بغیر’’ آگ کے اس دریا کو عبور کرنا ‘‘ قطعا ممکن نہ تھا،ازل سے تا امروز یہی طریقہ رہا ہے کہ قدرت کسی ادارے سے بڑے کام لینا چاہتی ہے تو اسے مخلص ،سنجیدہ اور باکمال افراد مہیا کرتی رہتی ہے۔ اس کی تاریخ پر نظر ڈالئے تو ایک سے بڑھ کر ایک نابعہ یہاں خیمہ زن ملیں گے،حضرت مولاناسید منت اللہ رحمانیؒ اور حضرت مولاناقاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ وغیرہ۔ انہیں نوابغ میں ایک’’ قد آور نام‘‘ امیر شریعت سادس ’’حضرت مولانا سید نظام الدین‘‘ گیاویؒ کا ہے۔

حضرت مولانا سید نظام الدینؒ (ولادت31؍ مارچ1927ء: وفات17؍اکتوبر2015ء)بہار واڑیسہ وجھار کھنڈ کے چھٹے امیر شریعت تھے۔ ان سے پیش تر بالترتیب حضرت مولانا عبدالرحمنؒ ،حضرت مولانامنت اللہ رحمانیؒ ،حضرت مولانا قمرالدینؒ ، حضرت مولانامحی الدینؒ اورحضرت مولانا بدرالدینؒ امیر رہے ہیں۔ مولانا مرحوم1991ء سے1998ء تک نائب امیر شریعت، پھر1998ء سے تا حیات’’ امیر شریعت‘‘ کے عظیم ترین منصب پر فائز رہے۔1965ء سے1998ء تک آپ امارت شرعیہ کے ناظم بھی رہے۔

امیر شریعت کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، وہ میدانی شخصیت تھے۔فعال وجواں عزم۔ ضعف ونقاہت کے باوجود ان کا سفری سلسلہ تادمِ مرگ جاری رہا۔ ملت کی فلاح وبہبود کے لئے وہ کہاں کہاں نہ پھرے۔ فاطر ہستی ..نے انہیں علم وعمل دونوں خوبیوں سے نوازا تھا، وہ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کے فیض یافتہ ، دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور ان اساتذہ کے صحبت یافتہ تھے جن کی کیمیا اثر نگاہیں تقدیریں بدل دیا کرتی تھیں۔ مرحوم کو خاکسار کے دادا حضرت مولانا مفتی محمود احمد ناصری(نستوی)کی شاگردی کا شرف بھی حاصل تھا۔1946ء میں دارالعلوم سے فراغت پائی اور1947 ء میں تخصص فی الادب کیا۔ سولہ برسوں تک انہوں نے مسند تدریس کو بھی رونق بخشی۔ مختلف تنظیموں اور اداروں سے ان کی وابستگی رہی۔متعدد اداروں کی سرپرستی بھی فرمائی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی کے ساتھ1991ء سے تا وفات اس کے جنرل سکریٹری رہے۔

امیر شریعت جب تک حیا ت رہے، علما وعوام کے لئے باعثِ صد رشک رہے۔ خوب زندگی گزاری۔ ان کاطرز عمل اسلام کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔ رنجشوں اور تنازعات سے گریزاں رہتے۔ امیر شریعت رابع حضر ت مولانا منت اللہ رحمانی اور قاضی القضاۃ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی صاحب سے خوب جمی،ملت کے لئے سربہ کفن رہنا ان کا وظیفہ عمر تھا۔ بابری مسجد کی بازیابی میں ان کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔ کم گو اور پر گو تھے۔دیدہ وراور دانش ور تھے۔ سوچ کر اور خوب تر فیصلے کرتے۔ ان کی چال چلن ، رہن سہن، ان کی ادائے دلبرانہ عجیب مقناطیسیت رکھتی۔ کم وبیش 89؍سال کی عمر پاکر2015ء میں آخرت کی راہ لی۔ان کے انتقال پر ملت بہت روئی۔ درد وکرب اور بے چینی واضطراب نے اسے بہت تڑپایا۔ تعزیتی جلسوں اور قرار داوں کا ایک طویل سلسلہ رہا۔ اخبارات نے ان کی موت کو عظیم خسارہ بتایا۔ اکابر امت نے ان کی وفات کو عظیم خلا سے تعبیر کیا۔شخصیتوں کے گزرنے کے بعد ان کی سیرت وسوانح پر کتابیں چھپنا عام بات ہے،یہ ہونا بھی چاہئے۔ یہی کتابیں پورے خدوخال کے ساتھ انہیں زندہ بھی رکھتی ہیں۔’’ شخصیت ناموں‘‘ سے جہاں صاحب سوانح کا مقام ومرتبہ اجاگر ہوتا ہے ،وہیں اس عہد کی علاقائی وملکی تہذیب ،معاشرت اور سیاسی حالات وواقعات بھی سامنے آجاتے ہیں۔امیر شریعت کے حالات زندگی پر بھی مواد کی شدید ضرورت تھی۔ ان کے چاہنے والے ان کی پوری زندگی پر نظر ڈالنا چاہتے تھے۔ مگر یہ کام بے حد مشکل اور کانٹوں پر چلنے جیسا تھا۔ مرحوم جس وضع اور انوکھی اداؤں کے مالک تھے، ان کے کارناموں کو اجاگر کرنا قطعی آسان نہیں تھا۔ وہ سراسر’’ اخفائی شخصیت ‘‘تھے۔ ان کے کارہائے شیشہ وآہن سے پردہ اٹھانا اور زندگی کے طویل دورانیے کی پر تیں ہٹانا خونِ گرم ، عز م جواں ا ورجوش جنوں کا متقاضی تھا۔ اللہ کا کرم کہ عزیزم’’ محمد عارف اقبال‘‘(ایم اے فائنل ائیر ،شعبہ اردو ،دہلی یونیورسٹی، دہلی)کی شکل میں ایک جواں سال،محنت کش اور سیال صاحبِ قلم سامنے آیا، جس نے طالب علمی ہی کے دور میں خدا معلوم کس کس طرح تنکے تنکے سے آشیانہ وہ بھی شاندار آشیانہ تعمیر کردیا۔

امیر شریعت پر دوکتابیں آئیں ۔ایک ان کی حیات میں اور دوسری پس از مرگ ۔پہلی کتاب ’’باتیں میر کارواں کی‘‘ اور دوسری ’’امیر شریعت سادس، نقوش وتاثرات ‘‘جو زیر تبصرہ ہے۔ اول الذکر نے مرحوم کے اوصاف وکمالات سے جس طرح نقاب کشائی کی، قارئین چونک گئے، اس میں ملک کی چوٹی کی شخصیتوں کے تحسین نامے بھی تھے۔ دونوں کتابوں کے مؤلف یہی محمد عارف اقبال دربھنگوی ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب امیر شریعت کے کارناموں، ان کے بلند اخلاق، ان کی عالی ظرفی، روشن ضمیری، پاک نفسی، فراخ ذہنی، اولو العزمی اور ان کے حیرت انگیز شب وروز سے پردہ اٹھاتی ہے۔ اس میں اکابر امت، درمیانی صف کے مستند اہل علم اور نوجوان خامہ برداروں کے مضامین،تاثراتی نظمیں،مرثیے اور اخباری تراشے جمع کئے گئے ہیں۔ ان تحریروں میں حضرت مرحوم کی ہشت پہلو شخصیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب کو چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ با ب اول میں حالات زندگی اور کارنامے، باب دوم میں اداروں سے وابستگی باب سوم میں بزرگوں اور رفقا سے تعلق، باب چہارم میں ادبی خدمات، باب پنجم میں باتیں میر کارواں کی پر اہل علم وادب کے تاثرات اور باب ششم میں سانحہ ارتحال پر مضامین و مقالات شامل کئے گئے ہیں ۔ مقالہ نگاروں میں اکثر نام مشہور ہیں۔ سعودیہ عربیہ ،دیوبند، دہلی، لکھنو اور بہار کے معروف اصحاب قلم کی نگارشات اس کتاب کی زینت ہیں۔کتاب کے آغاز میں چودہ صفحات پر مشتمل مصنف موصوف کا بسیط’’ مقدمہ‘‘ ہے۔اس مقدمے میں کتاب کے پس منظر، اس کی ترتیب کی روداد، اکابرِ امت سے اپنا شوقِ ملاقات، اپنے محسنین و معاونین کی شکر گزاری اور حضرت امیر شریعت سے اپنے تعلقات کا اظہار ہے۔یہ حصہ مصنف کی صلاحیت و صالحیت اور بزرگانِ دین سے ان کی شیفتگانہ اداں کا آئینہ دار ہے۔کتاب کا یہ حصہ پڑھ کر بے ساختہ ان کے لیے دعا نکلتی ہے اور ان کے عزم و ولولے کو سلام کرنا پڑتا ہے۔مقدمہ کے بعد آٹھ دیگر شخصیات کی تاثراتی تحریریں ہیں، جن میں میرِ عصر ڈاکٹر کلیم عاجز، ادیبِ شہیر حضرت مولانا بدرالحسن صاحب کویت اور حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن فتح پوری صاحب زیادہ نمایاں ہیں۔تالیف کے 54؍صفحات تک ایسے ہی مضامین ہیں، جن میں امیرشریعت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ مصنف کی’’کوہ کنی‘‘کی داد دی گئی ہے۔مجموعے کا مقصودی حصہ’’باب اول‘‘سے شروع ہوتا ہے۔اس حصے کے آغاز میں مؤلف موصوف کے قلم سے’’زندگی نامہ‘‘ہے، جس میں حضرت مرحوم کی حیاتِ طیبہ کے اہم گوشوں پر طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے۔اس باب میں اس کے علاوہ 30؍دیگر مضامین بھی ہیں، جن میں حضرت مرحوم کی مثالی زندگی پر ممتاز اہلِ قلم نے خوب دادِ تحقیق دی ہے۔یہ حصہ سب سے بڑا ہے اور کتاب کے 223؍صفحات تک مبسوط و منشورہے۔باب دوم میں اداروں سے وابستگی پر چھ خوب صورت مقالات ہیں۔ان میں بڑی وضاحت کے ساتھ دینی و ملی اداروں کے ساتھ حضرت کے والہانہ لگا پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے۔صفحہ 290؍سے 339؍تک تیسرا باب ہے۔اس باب میں مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ ، امیرشریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ ، قاضی القضا ۃ حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی ؒ اور برکۃ العصرحضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی سمیت 8؍اہم شخصیات سے مولانا کے قلبی لگا کو اور باہم احترام و تعلقات کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس باب میں 8؍شان دار نگارشات ہیں۔باب چہارم کی شروعات 340؍سے ہو کر 419؍ پہونچتی ہے۔اس باب میں حضرت امیر شریعت کے ادبی پہلو پر بیش بہا مقالات ہیں۔حضرت مولانا سیدرابع حسنی ندوی، مولانا واضح رشید ندوی اور مرحوم ڈاکٹر کلیم عاجز کے خامہ عنبر شمامہ سے ان کی ادبی شخصیت سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔یہ حصہ اہل ادب کے لیے خاصے کی چیز ہے۔اسی باب میں احقر فضیل احمد ناصری کا بھی ایک مضمون شامل ہے۔صفحہ 420؍سے 497؍تک پانچواں باب ہے۔اس باب میں خطوط، منظوم تاثرات، مقالات و رپورتاژ، مؤلف کی اولین کتاب’’باتیں میر کارواں کی‘‘کی رسم اجرا سے متعلق تفصیلات، اس پر اخبارات کے تراشے اور بعض رسالوں میں اس پر تبصرے درج ہیں۔باب ششم498؍سے 634؍تک پھیلا ہوا ہے۔اس باب میں حضرت امیر شریعت کی وفات پر چوٹی کی شخصیات کے تعزیت نامے شامل ہیں، جن میں ملک کے نائب صدر حامد انصاری، مولانا رابع حسنی ندوی، محترمہ سونیا گاندھی سمیت 7؍نمایاں نفوس ہیں۔اس کے بعد امیرشریعت کی وفات پر 22؍تاثراتی تحریریں ہیں، جن میں اصحاب قلم نے مرحوم سے اپنے لگاؤ، امت کے تئیں ان کی فکرمندی، حاضر دماغی، فکری بیداری اور حمیتِ دینی پر دل کھول کر خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔اس کے بعد 7؍شعراے کرام کے منظوم تاثرات بھی ہیں۔اخیر میں اخباری بیانات کے ایک وقیع ضمیمے کا الحاق بھی ہے۔کتاب کا اختتام مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کے مختصر احوال و کوائف پر ہوتا ہے۔بہت کم بلکہ شاذ ونادر ہی لوگوں کو معلوم ہوگا کہ حضرت مرحوم اردو زبان وادب کا اعلی مذاق رکھتے تھے۔ انہو ں نے دارالعلوم میں طالب علمی کے دوران بزم سجاد کے دیواری پرچے ماہنامہ’’ البیان‘‘ کی ادارت بھی سنبھالی۔مسلم پرسنل لا بورڈ نے جب اپنا آرگن ’’خبر نامہ‘‘ شروع کیا تو ادارت کے لیے نظر انتخاب مولانا پر ہی پڑی۔مرحوم بلند پایہ شاعر بھی تھے، کتاب میں ان کے مذاق سخن پربھی متعدد مقالات موجود ہیں۔ حضرت مولانا رابع حسنی ندوی(لکھنو)اورمیر عصر ڈاکٹر کلیم احمد عاجز مرحوم جیسے رمز شناس ادیبوں کے رشحاتِ فکر بھی شامل ہیں۔’’شعر وسخن کا کوہِ طور ‘‘کے عنوان سے احقر فضیل احمد ناصری کا بھی نوصفحات پر مشتمل ایک مقالہ شریک ہے۔

کتاب اپنی معنوی خوبیوں کے ساتھ ظاہری کشش سے بھی خوب مزین ہے۔ بہتر ین کاغذ ، دیدہ زیب سرورق، خوب صورت سیٹنگ، عمدہ ڈیزائننگ اور معیاری طباعت اس کتاب کی اہمیت کو دوبالا کرتی ہے۔ بہار کے قدیم ترین دینی ادارے ’’مدرسہ امدادیہ دربھنگہ‘‘ نے اس کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا ہے۔ مدرسہ امدادیہ نے یہ مجموعہ چھاپ کر اپنے ایک نامور فرزند کو خوب صورت خراج تحسین پیش کیا ہے۔مرتب کتاب محترم محمد عارف اقبال صاحب اس کتاب کی اشاعت پر لائق صد تبریک ہیں۔ ان کی اس کوشش نے’’ امیر شریعت شناسی‘‘ کا عظیم فریضہ انجام دیا ہے۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے ۔ ہر اہل علم کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے۔

( مضمون نگار  فضیل احمد ناصری القاسمی ، جامعہ امام محمد انور شاہ ،دیوبند میں استاذ حدیث ہیں)

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

تبلیغی جماعت اور اس کے عالمی اثرات ..... از: ضیاء الرحمن رکن الدین ندوی (بھٹکلی)

​​​​​​​اسلام کا یہ اصول ہے کہ جہاں سے نیکی پھیلتی ہو اس کا ساتھ دیا جائے اور جہاں سے بدی کا راستہ پُھوٹ پڑتا ہو اس کو روکا جائے،قرآن مجید کا ارشاد ہے۔”تعاونوا علی البرّ والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان“

اپنے روزوں کی شیطان سے حفاظت کیجیے ..................... آز: ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ

شیطان ہر انسان کے ساتھ لگا ہے۔اس نے اللہ تعالیٰ کو چیلینج دے رکھا ہے کہ میں تیرے بندوں کو راہ راست سے بھٹکاؤں گا۔حضرت آدم ؑ کے ساتھ شیطان کو بھی زمین پر اتارا گیا تھا۔اس دن سے آج تک ابلیس و آدم ؑکی کشمکش جاری ہے۔ابلیس کئی طرح سے انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔وہ انسان کو گناہ کی ...

قربانی: رسم سے آگے ................... آز: کامران غنی صباؔ

اسلام کی کوئی بھی عبادت صرف رسم نہیں ہے۔ قربانی بھی ایک عظیم عبادت ہے جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ افسوس کہ ہم میں سے بیشتر لوگ یا تو ان حکمتوں کو سمجھتے نہیں یا سمجھتے بھی ہیں تو انہیں اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش نہیں کرتے۔

عشرۂ ذی الحجہ میں عبادت کا خاص اہتمام کریں، قربانی شعائر اسلام میں سے ہے! مرکز تحفظ اسلام ہند کے آن لائن ہفت روزہ کانفرنس سے مفتی ہارون ندوی اور مولانا احمد ومیض ندوی نقشبندی کا خطاب!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء جلگاؤں کے صدر اور وائرل نیوز کے ڈائریکٹر حضرت مولانا مفتی ہارون ندوی صاحب نے فرمایا کہ قربانی اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے۔اسی لئے ...

زکاۃ اسلام کا خوب صورت معاشی نظام ................ از: خورشید عالم داؤد قاسمی

زکاۃ اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے۔ وہ ایک ایسا کمیاب نظام ہے، جو فقیروں کی ترقی کا ضامن اور مسکینوں کی خوش حالی کا کفیل ہے۔زکاۃ اسلام کا ایسا اہم نظام ہے کہ اس کے ذریعے سماج سے غربت کا خاتمہ بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے کہ اس سے امیروں اور فقیروں کے درمیان محبت ...

لیلۃ القدر؛ہزار مہینوں سے افضل رات۔۔۔۔ از: عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

    اگر دنیا کے کسی سوداگرکو یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں مہینے اورتاریخ کوہمارے قریبی شہر میں ایک میلہ لگنے والا ہے؛جس میں اتنی آمدنی ہو گی کہ ایک روپیہ کی قیمت ہزارگنا بڑھ جائے گی اور تجارت میں غیرمعمولی نفع ہوگا،تو کون احمق ہوگا جو اس زریں موقع کو ہاتھ سے جانے دے گا؟اور اس سے ...

منیش سسودیا کی عدالتی تحویل میں 26 اپریل تک کی توسیع

دہلی کی ایک عدالت نے جمعرات کو شراب پالیسی کے مبینہ گھوٹالہ سے متعلق منی لانڈرنگ معاملہ میں عآپ کے لیڈر اور سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کی عدالت تحویل میں 26 اپریل تک توسیع کر دی۔ سسودیا کو عدالتی تحویل ختم ہونے پر راؤز ایوینیو کورٹ میں جج کاویری باویجا کے روبرو پیش کیا ...

بھٹکل، ہوناور، کمٹہ میں سنیچر کے دن بجلی منقطع رہے گی

ہیسکام کی طرف سے جاری پریس ریلیز کے مطابق ہوناور، مرڈیشور اور کمٹہ سب اسٹیشنس کے علاوہ مرڈیشور- ہوناور اور کمٹہ - سرسی 110 کے وی لائن میں میں مرمت ، دیکھ بھال،جمپس کو تبدیل کرنے کا کام رہنے کی وجہ سے مورخہ 20 اپریل بروز سنیچر صبح 9 بجے سے دوپہر 2 بجے تک بھٹکل، ہوناور اور کمٹہ تعلقہ ...

لوک سبھا انتخابات کے چوتھے مرحلہ کے لئے گزٹ نوٹیفکیشن جاری

الیکشن کمیشن نے لوک سبھا انتخابات 2024 کے چوتھے مرحلہ کے لئے گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ کمیشن کے مطابق انتخابات کے چوتھے مرحلہ میں 10 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی 96 پارلیمانی سیٹوں پر انتخابات ہوں گے۔ اس مرحلہ کی تمام 96 سیٹوں پر 13 مئی کو ووٹنگ ہوگی۔ نوٹیفکیشن جاری ...

بھٹکل میں کوآپریٹیو سوسائٹی سمیت دو مقامات پر چوری کی واردات

شہر کے رنگین کٹّے علاقے میں واقع ونائیک کو آپریٹیو سوسائٹی کے علاوہ دیہی پولیس تھانے کے حدود میں ایک دکان اور مرڈیشور بستی مکّی کے ایک سروس اسٹیشن میں سلسلہ وار چوری کی وارداتیں انجام دیتے ہوئے لاکھوں روپے نقدی لوٹی گئی ہے ۔

ہیمنت سورین کی ضمانت کی درخواست پر سماعت، ای ڈی نے جواب دینے کے لیے مانگا وقت

  زمین گھوٹالہ ومنی لانڈرنگ کے الزام میں جیل میں بند جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کی ضمانت کی درخواست پر منگل کو پی ایم ایل اے کی خصوصی عدالت میں سماعت ہوئی، مگر عدالت سے انہیں فوری راحت نہیں مل سکی۔ دراصل اس معاملے میں ای ڈی نے اپنا موقف اور جواب پیش کرنے کے لیے وقت ...