جمہوریت کا چوتھا ستون ہی منہدم ہوگیا تو ۔۔۔۔۔؟ از: ایم، اے ، کلّاپو۔منگلورو
’’اس ملک میں اظہارِ رائے نام کی ایک آزادی بھی ہے،جس کے تحت تحریر ، تقریر، دھرنا، احتجاج کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کئے جانے کا حق تمام کو ہے ہی۔ لیکن اس کے لئے سڑک پر ہنگامہ خیزی کرنے والوں کوپیدائشی حق سمجھنا خطرنا ک ہوگا۔ اس سلسلے میں ریاست کے کچھ میڈیا والوں کو دوبارہ غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے‘‘
صحافت (میڈیا) کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتاہے۔ ایمانداری کے ساتھ سچی اور حقیقی خبریں شہری سما ج تک پہنچاکر سماجی امن کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری میڈیا پر ہے۔ حال ہی میں بنگلورو کے تھیالوجیکل کالج ہال میں ایمنسٹی انٹر نیشنل نے کشمیری متاثرین کوانصاف دلانے کے لئے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا تھا، جس میں ملک مخالف نعرہ بازی کے بہانے بھگوا قوتوں نے ورکشاپ کو روکنے کی خبریں ہمارے کچھ قومی (کنڑا)روزناموں میں شائع کرکے ہنگامہ برپا کیا ہے۔
متعلقہ خبر کی رپورٹنگ کرتے ہوئے کچھ اخبارات نے ورکشاپ کےانعقاد کوملکی مفاد کے خلاف لکھا اور جذبات کو مشتعل کرنے جیسی بتایا تو کچھ روزناموں نے کشمیر میں فوجی کارروائی کے طریقے میں سب کچھ ٹھیک نہ ہونے کی بات کہی۔
’’اس ملک میں اظہارِ رائے نام کی ایک آزادی بھی ہے،جس کے تحت تحریر ، تقریر، دھرنا، احتجاج کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کئے جانے کا حق ہر ایک کو حاصل ہے ۔ لیکن اس کے لئے سڑک پر ہنگامہ خیزی کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھنا خطرناک ہوگا۔ اس سلسلے میں ریاست کے کچھ میڈیا والوں کو دوبارہ غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے‘‘
غورکرنےکی بات یہ ہے کہ متعلقہ ورکشاپ منعقد کرنے والی کالج اور ادارہ کے افراد جمہوریت میں یقین رکھنے والے ذمہ دارشہری ہیں۔ وہاں ملک مخالف نعرہ بازی ہونے کی بات پرشک ہوسکتاہے لیکن اس کو مصدقہ کہہ نہیں سکتے ۔ اس سے قبل بھی جے این یو میں طلبا تنظیم کی طرف سے منعقدہ جلسہ میں اسی طرح کے نکمے الزامات عائد کرتے ہوئےمیڈیامیں بائیں بازو کی تمام فکرکو ملک غدار ہونے کامعنی پہناتے ہوئے کچھ لوگوں نے ہنگامہ برپا کرکے شرمندگی کا باعث بنے تھے۔
عدم تحمل (بربریت)کی حمایت کرنے جھوٹ پر جھوٹ بولنا پڑتاہے۔ کچھ عرصہ قبل کرناٹکا کے سندگی نامی مقام پر پاکستان کا جھنڈا لہرا نے والے ، ہبلی عدالت میں بم دھماکہ کرکے اقلیتوں پر ملک غداری اور دہشت گردی کا جھوٹا الزام لگانے والے آج تک جیل کی ہوا کھائے بغیر اصلی دیش بھگت کی طرح میڈیا میں چہک رہےہیں۔ ایسوں کی کارستانیوں کو میڈیا والے ’’اخلاقی پولس گری ‘‘اور’’مذہبی ڈنڈا برسانے والے ‘‘کہہ کرانہیں مزید ترغیب دینے میں کوئی کمی نہیں کررہے ہیں۔
اپنے مخالفین کی اعلیٰ شخصیات ، مخالف گروہ کے معصوم نوجوانوں ، دوسرے دھرم کے معصوم ذات والوں کی موت ہوتی ہے تو واٹس اپ پر پیغامات ارسال کرتے ہوئے خوشی سے ناچنے والے کیا صحت مند سماج کے شہری ہونگے۔ دہوں پہلے ایک ہندوتوا ادیب نے ریاستی اخبار نویسوں سے سر گوشی کے ذریعے کہا تھا کہ ’’ہندوتوا کے حق میں اخباری رپورٹنگ کریں ‘‘ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا آج وہ ناٖفذ تو نہیں کی جارہی ہے؟میڈیا والے اس سلسلے میں دوبارہ غور کریں توبہتر ہوگا۔
بشکریہ : کنڑا روزنامہ ’’ وارتا بھارتی ‘‘