اُڈپی میں بجرنگ دل کارکنوں کے حملہ میں ہلاک ہونے والے حسین ابّا کی موت کا سبب سر پر لگنے والی چوٹ۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف
اڈپی 16؍جون (ایس او نیوز) ہیری اڈکا پولیس اسٹیشن کی حدود میں پیراڈور کے مقام پر مویشیوں کے تاجر حسین ابّا اور اس کے ساتھیوں کی گاڑی روک کر پولیس اور بجرنگ دل کارکنان کی ملی بھگت سے 30مئی کو صبح کی اولین ساعتوں میں جو حملہ ہوا تھا اوراس کے بعد ایک پہاڑی علاقے سے حسین ابا کی لاش برآمد ہوئی تھی اس معاملے کی گتھی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے اب پوری طرح سلجھ گئی ہے اور یہ ایک قتل کا معاملہ ثابت ہوگیا ہے۔
خیال رہے کہ ابتدا میں ہیری اڈکا پولیس نے اسے ہارٹ اٹیک کا معاملہ قرار دینے کی کوشش کی تھی، مگر حسین ابا کے گھر والوں نے پولیس اور بجرنگ دل کارکنان پر سازش رچنے اورحسین ابا کو قتل کرنے کے بعد اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کا الزام لگایا تھا۔ ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ نے فوری طور پر اس معاملے میں دلچسپی لی اور ابتدائی تحقیقات کے بعداس مشتبہ موت کے تعلق سے دفعہ 302کے تحت کیس درج کرلینے کے ساتھ ہی نہ صرف تین پولیس والوں کو گرفتار کیا تھا بلکہ بجرنگ دل لیڈر اور کارکنان کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔تینوں ملزم پولیس والوں کو کاروار جیل میں قید رکھا گیا ہے۔ اس ضمن نے جملہ 11ملزمان کو گرفتار کیاگیاہے اوران سے تفتیش کے دوران یہ بات صاف ہوگئی تھی کہ جب پولیس اپنی گاڑی میں حسین ابا کو لے جارہی تھی تو اس نے پولیس گاڑی میں ہی دم توڑ دیا تھاجس کے بعد بجرنگیوں کے ساتھ مل کر پولیس سب انسپکٹر ڈی این کمار، ہیڈکانسٹیبل موہن کوتوال اور پولیس جیپ ڈرائیور گوپال نے ایک پہاڑی علاقے میں حسین ابا کی لاش کو پھینک دیا تھا۔
اس کیس کی تازہ پیش رفت یہ ہے کہ یہ کیس سی آئی ڈی کے حوالے کیا جاچکا ہے اور اگلے دوچار دنوں میں سی آئی ڈی ٹیم اڈپی پہنچ کر اپنی تحقیقات کا آغاز کرنے والی ہے۔لاش کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ جو موصول ہوئی ہے اس کے مطابق حسین ابا کی موت سرپر چوٹ لگنے کی وجہ سے واقع ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک باقاعدہ قتل کا معاملہ ہے۔ اس معاملے میں گرفتار ملزمین نے ضمانت کے لئے عدالت میں درخواست دی تھی جس پر شنوائی کے دوران عدالت کی ہدایت پر تحقیقاتی افسر کارکلا کے اے ایس پی رشی کیش سوناونے نے پوسٹ مارٹم رپورٹ عدالت میں حاضر کردی ہے۔ اب ضمانت کی درخواست پر اگلی سماعت18جون کو ہوگی۔تمام ملزمان کی عدالتی حراست میں 28جون تک توسیع کی گئی ہے۔ اس قتل کے تعلق سے ابھی فارنسک رپورٹ آنی باقی ہے۔ مزید تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہونا ہے کہ گرفتار ملزمان میں سے حسین ابا پر کس کس نے حملہ کیا تھااور سر پر مارنے والا کون تھا۔