جنیوا : انسانی حقوق کونسل میں یمن میں بچوں کی بھرتی کا معاملہ زیر بحث
پیرس6مارچ(ایس او نیوز؍ آئی این ایس انڈیا )جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں 4 رپورٹیں پیش کی گئی ہیں جن میں یمن میں حوثی ملیشیا کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیوں کی جانب سے پیش کی گئی ان رپورٹوں میں تا دم مرگ تشدد، صحت، دہشت گردی کے پھیلاؤ اور بچوں کی بھرتی سے متعلق امور کو بیان کیا گیا ہے۔ حوثی ملیشیا کی جانب سے اسکول کے بچوں کو زبردستی بھرتی کیا جاتا ہے اور پھر انہیں تربیت کے بغیر ہی لڑائی کے محاذوں پر جھونک دیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ میں بین الاقوامی امور کی ماہر ڈاکٹر اسٹریڈ اسٹیوکیلبرگر نے یمن میں بچوں کی بھرتی کے بارے میں پریزینٹیشن پیش کی۔ انہوں نے العربیہ کو بتایا کہ "یمن میں بھرتی کیے جانے والے بچوں کو جن میں 40 فیصدی لڑکیاں ہوتی ہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ لڑائی میں حصّہ لینے کے لیے جا رہے ہیں۔ ان بچوں کو گھروں اور اسکولوں تک واپس لانا ایک دشوار مشن ہے کیوں کہ انہیں جبری طور پر بھرتی کیا جاتا ہے ۔جیلوں اور حراستی مراکز میں باغی حوثی ملیشیا کی جانب سے تشدد کیجرائم کے نتیجے میں گزشتہ برس 28 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق یہ تمام افراد کسی عسکری سرگرمی میں شریک نہیں تھے۔یمن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرنے والے اتحاد کے رکن براء شیبان نے بتایا کہ ہم نے حوثیوں کی جیلوں میں تشدد سے ہونے والی ہلاکتوں کا پورا معاملہ آگے پیش کر دیا ہے اور اب ایک آزاد تحقیقاتی کمیٹی کا انتظار ہے تا کہ حوثی ملیشیا کے زیر کنٹرول جیلوں میں تشدد کے جرائم سے متعلق تفصیلات سامنے آ سکیں ۔ادھر یمن میں حوثیوں کی کارستانیوں کے سبب 5 ہزار طبّی ادارے تباہی اور نظر اندازی کا شکار ہو گئے۔ اس کا نتیجہ 10 ہزار افراد کی موت اور 35 ہزار کے زخمی ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔گزشتہ برس اگست میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق یمن میں 2.6 کروڑ کی مجموعی آبادی میں 80% افراد کو فوری طور پر انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔