ہبلی :ٹیپو جینتی پر بی جے پی کو تنقید کا کوئی حق نہیں ،دعوت ناموں میں نام شائع نہیں ہوگا: وزیر اعلیٰ سدرامیا
ہبلی:9/ نومبر (ایس اؤنیوز) بی جے پی والے ڈھونگی ہیں، جب وہ اقتدار پر نہیں تھے تو ٹیپو جینتی کے پروگرامات میں شرکت کئے ہیں،یڈیورپا ، جگدیش شٹر وغیرہ ٹیپو سلطان کے متعلق تعریف کے پل باندھے ہیں، ٹیپو سلطان کی ٹوپی ، تلوار پہن کر پروگراموں میں تصویریں کھینچوائے ہیں تو انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ آج ٹیپو جینتی کی تنقید کریں ،اخلاقی طورپر انہیں تنقید کا حق نہیں ہے۔ بی جےپی والوں کی طرف سے ٹیپو جینتی کے دعوت نامے میں نام شائع نہیں کئے جانے کی اپیل پر ریاست کے وزیر اعلیٰ سدرامیا نے ان خیالات کااظہار کیا۔
وہ یہاں شہر ہبلی میں ہوائی جہاز اڈے پر اخبارنویسوں سے بات کر رہے تھے۔ وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ ٹیپو جینتی کو لے کر جنہوں نے بھی دعوت نامے میں اپنا نام شائع نہیں کرنےکی تحریری اور زبانی سطح پر اپیل کی ہے ان سب کے نام شائع نہ کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے اوران کا نام دعوت ناموں میں شائع نہیں کیاجائے گا،البتہ جنہوں نے اس تعلق سے کچھ بھی نہیں کہا ہے ان کانام شائع کرنے کو کہاگیا ہےعوامی سطح پر سدرامیا حکومت کا ایک بڑا قدم ماناجارہاہے۔
ریاستی کابینہ کے وزیر ایندھن اور کانگریس کے دگج لیڈر ڈی کے شیوکمار کے بی جے پی میں شامل ہونےکی خبروں پر پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیرا علیٰ نے بتایا کہ ڈی کے شیو کمار پیدا ئشی کانگریس ہیں۔ وہ اتنی آسانی کے ساتھ بی جےپی کے جال میں پھنسنے والے نہیں ہیں ، آئی ٹی چھاپہ ماری کے ذریعے انہیں اپنی پارٹی کی طرف راغب کرنے کی کوشش جاری ہے، لیکن ڈی کے شیو کمار دباؤ میں آنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بی جے پی والے شیوکمار کو نائب وزیر اعلیٰ کے عہدہ کی بات کررہے ہیں جب کہ نائب وزیرا علیٰ کوئی دستوری عہدہ نہیں ہے۔ اور شیوکمار اس سے بھی اعلیٰ مقام پر ہونےکا وزیر اعلیٰ نے خیال ظاہر کیا ۔
اس کے برعکس بی جے پی کے کئی لیڈران ہمارے رابطہ میں ہیں۔ ان کی پارٹی میں شمولیت کو لے کر گفتگو جاری ہے، لیکن آر ایس ایس والوں کو کانگریس پارٹی میں شامل نہیں کیا جائے گا کیونکہ آر ایس ایس سے منسلک لوگ فرقہ پرست ہونے کی بات کہی۔ لنگایت دھرم کو آزاد تسلیم کرتے ہوئے اقلیتی درجہ دینے کی مانگ پر پوچھے گئے سوال پر وزیر اعلیٰ نے کہاکہ ابھی انہی کے درمیان اختلافات چل رہے ہیں، ہم اس میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے ، جہاں تک اقلیتی درجہ عطا کرنے کا معاملہ ہے وہ مرکزی حکومت کے اختیار میں ہے ریاست کا کام صرف سفارش کرنے کی حد تک ہونے کی بات کہی۔