اسمبلی الیکشن میں فائدہ اٹھانے کے بعد کیا بی جے پی نے’ پریش میستا‘ کو بھلا دیا؟
بھٹکل 29؍اگست (ایس او نیوز)اسمبلی الیکشن کے موقع پر ریاست کے ساحلی علاقوں میں بہت ہی زیادہ فرقہ وارانہ تناؤ اور خوف وہراس کا سبب بننے والی پریش میستا کی مشکوک موت کو جسے سنگھ پریوار قتل قرار دے رہا تھا،پورے 9 مہینے گزر گئے۔ مگرسی بی آئی کو تحقیقات سونپنے کے بعد بھی اب تک اس معاملے کے اصل ملزمین کا پتہ چل نہیں سکا ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ خود سی بی آئی اپنی تحقیقات کو بہت سست رفتاری سے آگے بڑھا رہی ہے۔
ایک طرف ریاست ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو ہلادینے والا گوری لنکیش قتل کیس ہے جسے ریاستی کانگریسی حکومت نے ’نظریات کا قتل‘ قرار دیا تھا تو دوسری طرف پریش میستا کے قتل کو بی جے پی اور سنگھ پریوار نے ’ہندو کا قتل‘ قرار دیتے ہوئے پرزور اور پرتشدد احتجاجی مظاہروں کا راستہ اپنایا تھا۔اور بی جے پی کے دباؤ کو دیکھتے ہوئے کانگریس حکومت نے پریش میستا کی مشکوک موت کا معاملہ سی بی آئی کے حوالے کیا تھا۔پریش میستا کی موت پر چلائی گئی احتجاجی مہم کی بنیاد پر ہی اسمبلی الیکشن میں بی جے پی ساحلی علاقے اور ملیناڈو میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی اب پریش میستا کی موت کے تعلق سے کوئی بات نہیں کررہی ہے۔کوئی آواز نہیں اٹھا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کہ وہ پریش میستا کو بھول چکی ہے۔
جہاں تک سی بی آئی کی تحقیقات کا معاملہ ہے، اس بارے میں پتہ چلا ہے کہ اس نے اب تک صرف 3مرتبہ پریش میستا کے خاندان سے رابطہ قائم کرکے معلومات حاصل کی ہیں۔ دو مرتبہ پریش میستا کے والد اور اس کے بھائی کو کمٹہ پولیس اسٹیشن میں بلاکر ان کا بیان درج کروایا گیاتھا۔ اورپوسٹ مارٹم کا ویڈیو اور دیگر دستاویزات کو اپنے قبضے میں لیا تھا۔اس کے علاوہ فروری کے مہینے میں پانچ افراد کو اپنی تحویل میں لے کر پوچھ تاچھ کے بعد چھوڑ دیا تھا۔اس کے آگے تحقیقات کے نام پر ابھی تک کسی بھی قسم کی پیش رفت ہونے کی خبر نہیں ہے۔اس لئے عوام سوچ رہے ہیں کہ شائد یہ معاملہ بھی ڈاکٹر چترنجن قتل معاملے کی طرح وقت کے ساتھ ساتھ یونہی دب کر رہ جائے گا۔
پریش کی موت کا پس منظر: خیال رہے کہ5دسمبر 2017کو ہوناور اور اس کے اطراف میں فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ6دسمبر کو پریش میستا لاپتہ ہوگیا۔ پھر 8دسمبر کو اس کی لاش قریب کے ایک تالاب میں تیرتی ہوئی دستیاب ہوئی۔پریش کے والد کملاکر میستا نے الزام لگایا کہ ان کے بیٹے کو ایذادے کر ہلاک کیا گیا ہے۔ بی جے پی نے اسے فرقہ وارانہ رنگ دے کر اس قتل کے لئے مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرایا اور اس کے تار دہشت گردی سے جوڑ دئے۔ بی جے پی نے کانگریسی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ ملزموں کی حمایت کررہی ہے۔بی جے پی کے ریاستی لیڈروں کے علاوہ انتخابی تشہیری مہم کے لئے پہنچنے والے بی جے پی صدر امیت شاہ نے بھی پریش میستا کے گھر جاکر اس کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا تھا اور ملزمین کوسخت سزادلوانے کا وعدہ کیا تھا۔
رام لنگا ریڈی کا طنز: سابق ریاستی وزیر داخلہ رام لنگا ریڈی نے بی جے پی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ ہمیشہ ’لاش پر سیاست‘ کرنے کے عادی ہیں۔ پریش میستا کا معاملہ بھی اسی طرز عمل کی ایک مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ:’’ اس معاملے کو بی جے پی نے اپنی انتخابی تشہیر کے لئے ایک وسیلہ بناکر استعمال کیا۔ گوری لنکیش قتل کا معاملہ حل کرنے میں ہم نے پوری دلچسپی دکھائی اور ا س کے نتیجے میں دابولکر، پانسارے جیسے دانشوروں کے قتل میں ملوث ملزم شکنجے میں آگئے ہیں۔‘‘
بی جے پی لیڈروں کا ردعمل نہیں ملا:پریش میستا کی مشکوک موت کے بعد اسے فرقہ وارانہ قتل قرار دے کر سب سے زیادہ ردعمل ظاہر کرنے والے بی جے پی کے ا راکین پارلیمان شوبھا کرندلاجے اور اننت کمار ہیگڈے تھے۔ اننت کمار ہیگڈے کو اس کے بعد وزارت کا قلم دان بھی ملا۔ مگر شروع میں احتجاجی مظاہروں کے لئے دلچسپی دکھانے اور بیان بازی کرنے کے بعد اب وہ اس معاملے پر کوئی بات نہیں کررہے ہیں۔ تحقیقات میں ہورہی تاخیر کے سلسلے میں ان کاردعمل جاننے کے لئے ان دونوں لیڈران سے را بطے کی کوشش کی گئی مگر ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔