ہوشیار باش :گوگل اور ’امازون ‘ آپ کے گھرمیں اپ کے جاسوس ہیں
نیویارک 8اپریل (ایس او نیوز؍ آئی این ایس انڈیا) انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ’گوگل‘ سرچ انجن اور امازون جیسی ویب سائیٹس کی اہمیت کے قائل ہیں مگر درحقیقت یہ دونوں کمپنیاں صارفین کی جاسوسی بھی کرتی ہیں۔ایمیزون اور گوگل واقعی آپ کی تمام حرکات کو دیکھنا چاہتی ہیں. برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘کے مطابق دونوں کمپنیوں کی طرف سے جمع کردہ پیٹنٹ ایپلی کیشنز کی ایک انٹیلی جنٹ "اسپیکنگ " کے نظام کو استعمال کرتے ہوئے صارفین کو مستقل طور پر سننے کے قابل ہیں۔رپورٹ کے مطابق ’گوگل ھوم‘ اور ’ایمیزون ایکو‘ جیسے پروگرامات صارف کے مزاج اور اس کی طبی حالت تک کی معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گوکہ ان پروگرامات کی یہ خصوصیات مختلف مصنوعات کے اشتہارات کی ریٹنگ کو بڑھانے کے لیے ہے مگر یہ صارفین کے بارے میں بھی بہت کچھ معلومات فراہم کرتے ہیں۔’گوگل‘ اور ’امازون‘ کی جانب سے صارفین کی جاسوسی کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ’فیس بک‘ کروڑوں صارفین کے ڈیٹا چوری کے اسکینڈل کا سامنا کررہی ہے۔فیس بک کا کہنا ہے کہ برطانوی ریسرچ فرم 'کیبرج اینا لیٹیکا' کو آٹھ کروڑ 70 لاکھ سے زائد فیس بک صارفین کا ڈیٹا ملا تھا۔’گوگل‘ کی جانب سے تیار کردہ ایپلی کیشن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ کس طرح صوتی اور مرئی اشارات کے استعمال سے متکلم کے مزاج تک رسائی حاصل کرتی ہے۔ اس کی طبی حالت اور دیگر اہم معلومات جمع کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔آلہ سماعت ٹیون کی مدد سے صارف کی آواز، اس کی سانس لینے کی رفتار اور رونے کی کیفیت کے بارے میں جان کاری حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح صارف کے دست اورچھینک کی بھی نشاندہی کرسکتا ہے۔گوگل اپنے پروگرام کی مدد سے صارف کے کمرے کے فرش پر پڑی ٹی شرٹ کی شناخت کرسکتا ہے۔ مشہور ماڈل ویل سمیتھ کی گوگل پر تلاش کے دوران صارفین کا ڈیٹا چوری کیے جانے کا واقعہ ایک مثال کی شکل میں موجود ہے۔ ویل سمیتھ کی تلاش کیدوران گوگل صارف کو فلم دیکھنے کی تجویز پیش کرتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے پسندیدہ ماڈل ویل سمیتھ کی فلم کو اپنے قریبی علاقے میں موجود سینما میں دیکھ سکتے ہیں۔گوگل اپنے ’پیٹنٹ‘ کی مدد سے والدین کو اپنے بچوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے مختلف مشورے پیش کرتا ہے۔ مثال کے طورپر شام کے وقت بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گذارنے کا مشورہ۔جب بچے مشروبات کی الماری کے قریب ہوتے یا اپنے والدین کے بیڈ روم میں جاتے ہیں تو یہ جدید نظام ان بچوں کو پہنچنے والی کسی تکلیف کا تجزیہ کرسکتے ہیں۔ یہ اسمارٹ سسٹم والدین کی طرف سے بچوں پر پابندیوں یا موبائل فون کے استعمال سے روکنے کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے۔گوگل کی طرح امازون بھی صارفین کی جاسوسی کرتی ہے۔ اس کمپنی کی طرف سے پیٹنٹ کی مدد سے الگورتھم نظام کے استعمال سے آواز کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔جب یہ ایپلی کیشن نفرت، محبت اور خواہش کے الفاظ کو سنتی ہے الس سے صارف کی ترجیحات اور افکار کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔اس ایپ میں شامل پلان کے ذریعے واضح کیا جاسکتا ہے کہ دو دوست کیسے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ٹیکنالوجی کمپنی امازون کا کہناہے کہ وہ صارفین کی پرائیویسی کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور صارفین کی معلومات کو اشتہارات کی ترویج اور اشتہار دینے والی کمپنیوں تک نہیں پہنچاتی۔پچھلے سال کے آخر میں یہ انکشاف ہوچکا تھا کہ گوگل اور امازون صوتی اپیس کی مدد سے صارفین کی جاسوسی کرتی ہیں۔صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم سانٹا مونیکا کی طرف سے تیار کردہ رپورٹ میں بھی اس کا انکشاف ہوچکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’برآت ایجاد‘ یاپیٹنٹ مختلف آلات کی مدد سے وسیع پیمانے پر صارفین کی معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔