ملک کو ایک باضابطہ دانشمندانہ انتخابی نظام کی ضرورت ہے آئین جمہوریت کی حفاظتی حصار ہے۔ اقلیت واکثریت کے توازن کو برقرار رکھنے پر حامد انصاری کازور
بنگلورو،23؍جنوری (ایس او نیوز) سابق نائب صدر جمہوریہ ہند حامدانصاری نے کہا کہ ملک کو ایک باضابطہ سمجھدار انتخابی نظام کی ضرورت ہے ، شفاف انتخابی ماڈیول کو فروغ کی سمت بھی کوشش ہونی چاہئے ۔کیونکہ یہ عمل کثرت پسند معاشرہ کو کثرت سے جوڑتا ہے۔ ملک کے تئیں آبادی کے رشتہ کو استوار کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بروز منگل محکمہ سماجی بہبود کی جانب سے پانچ ستارہ ہوٹل میں منعقدہ دستور ہند پر مباحثہ نامی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ آئین اور دستور جمہوریت کی حفاظتی حصار ہے ،اس کو مؤثر طریقہ سے فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ رکاوٹیں کھڑی کرنے والی قوتوں اور جمہوری اداروں پر قدغن لگانے کی کوششوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔ آئین کی حفاظت آپسی تعاون اور بقائے باہمی سے ممکن ہے ۔ شہری کو اس کا رہائشی حق فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ انتخابی عمل کو نہایت شفاف اورمؤثر بنانا چاہئے تاکہ مقامی ،ریاستی اور قومی سطح کے مسائل کے حل کیلئے راستہ ہموار ہوسکے ۔ ایسا انتخابی نظام لانے کی ضرورت ہے جس میں اکثریت اوراقلیت کے مابین کافرق عصبیت کی نذر نہ ہواور اکثریت اوراقلیت کا توازن بگڑنہ پائے ۔ حامد انصاری نے قدرتی وسائل کی تقسیم کاری،وفاقی نظام ،سماجی انصاف ،اختیار اورمالیات کی اتھارٹی ودیگر حساس معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے خطاب کواختتام تک پہنچایا۔پونجی پتی اور دولت مندوں کی تجوریاں بھرنے اور سرمایہ کاروں کو ملک کی دولت لوٹنے کی راہ ہموار کرنے کیلئے دلت طبقات ، آدی واسیوں اور خواتین پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ۔ اس تلخ حقیقت کااظہار سی پی ایم پالیٹ بیرو کی رکن براندا کرات نے کیا ۔ کرات نے کہا کہ قبائل اور آدی واسیوں کو اپنے رہائش پذیر مقامات میں بسیرا کرنے اور گزر معاش کیلئے جدوجہد کرنے کا خصوصی آئینی حق حاصل ہے ۔ اس کے باوجود ان کو خانہ بدوش کرنے کی منظم سازش رچی جارہی ہے ۔ سنسد میں خواتین کو ریزرویشن فراہم کرنے کا مسودہ 2009ء سے 2019ء تک ایوان میں پڑا ہوا ہے ۔ اس کو تنفیذی شکل دینے میں کسی بھی حکومت نے دلچسپی نہیں دکھائی ۔ اس طرح آدی واسیوں اور خواتین کو مسلسل اذیت سے گزارا جارہا ہے۔ انہوں نے زعفرانی ایجنڈہ پر کہا کہ آج سنگھ پریوار والے ذات ،دھرم ،غذا اور لباس کے نام سے عوام پر ہلہ بول رہے ہیں ۔ اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی پیشانی پر ملک دشمن ہونے کا لیبل چسپاں کیا جارہا ہے ۔ اس لئے عام عوام کو چاہئے کہ وہ بی جے پی کے سیاسی ایجنڈہ سے قبل از وقت آگہی و واقفیت حاصل کرلیں ورنہ بی جے پی کے رکن پارلیمان راکیش سنہا نے اپنے خطاب میں کہا کہ اعلیٰ ذات میں موجود غریبوں کیلئے 10فی صد ریزرویشن جاری کرتے ہوئے بی جے پی نے ترقی پرور موقف اختیار کیا ہوا ہے ۔بی جے پی کے اس موقف کی مذمت چند تنظیموں کی مخالفت بے معنی و بے جا معلوم ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں غذا ،ذات اور دھرم کے نام سے ہورہے حملوں کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ لیکن مغربی بنگال میں سی پی ایم کے اقتدار کی مدت میں اصول اور موقف کے نام پر ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ ترنمول کانگریس انتظامیہ کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
بی جے پی کی مذمت: دریں اثناء بی جے پی کے ایس سی مورچہ کے قومی جنرل سکریٹری رامو اوررکن کونسل این روی کمار نے پروگرام کے انعقاد پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ٹمکور سدگنگا مٹھ کے سوامی کی فات کے غم میں ساراملک ڈوبا ہوا ہے ، ریاستی حکومت نے تین دنوں تک سوگ کا اعلان کیا ہے ۔ لیکن ریاستی حکومت کے محکمہ سماجی بہبود کی جانب سے دستور ہند پرمباحثہ نامی پروگرام کاانعقاد قابل مذمت ہے ۔ ریاستی حکومت نے تمام سرکاری پروگرام منسوخ کردےئے ہیں ۔ لیکن محکمہ سماجی بہبود نے پروگرام منعقد کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اس محکمہ کا سوامی کے دیہانت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ایسی حرکت کہیں بھی کوئی بھی شخص قبول نہیں کرسکتا۔ انہوں نے سخت لہجہ میں کہا کہ سوگ وماتم کے موقع پر سابق نائب صد ر ہند حامد انصاری، سی پی ایم کی قائد برند ا کرات، کنہیا کمار ، اے آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی کو پروگرام میں مد عو کرنا ناقابل فہم ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ پروگرام منصوبہ بند تھا۔