زندہ قومیں شکایت نہیں کرتی ہیں، بلکہ پہاڑ کھود کر راستے بنا لیتی ہیں ..... آز: ڈاکٹر ظفر الاسلام خان

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 5th November 2017, 4:03 AM | اسپیشل رپورٹس | مہمان اداریہ |

بہت عرصہ قبل میں نے ایک انگریز مفکر کا مقولہ پڑھا تھا کہ جب تک میری قوم میں ایسے سر پھرے موجود ہیں جو کسی نظریے کو ثابت کرنے کے لئے اپنا گھر بار داؤ پر لگاکر اس کی تحقیق کرتے رہیں، کسی چیز کی تلاش میں صحراؤں میں گھومتے رہیں اور پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں کو سر کرنے کی جد وجہد کرتے نظرآتے رہیں، اس وقت تک مجھے اپنی قوم کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔

اس کے برعکس ہماری حالت یہ ہے کہ کھانے، پینے، پہننے، مغرب کی نئی نئی مصنوعات فخر سے خریدنے سے ہم کو فرصت نہیں ہے۔ ایک ہزار سال تک دنیا کو دینے کے بعد پچھلے کئی سو سال سے ہم نے دنیا سے کچھ لیا ہی ہے ، دیا کچھ نہیں ہے۔

ابھی چند دن پہلے خبر آئی ہے کہ مکمل طور سے معذورانگریز سائنس دان سٹیفن ہاکنگ کے ۱۹۶۶ کے پی ایچ ڈی مقالے کو کیمبرج یونیورسٹی نے اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیا تو چند دن کے اندر پانچ ملین  (پچاس لاکھ)  لوگوں نے اس ویب سائٹ پر جاکر اسے پڑھا اور ان میں سے پانچ لاکھ لوگوں نے اس مقالے کو ڈاؤن لوڈ یعنی کاپی بھی کیا۔ کیا اس کی مثال کسی موجودہ عرب یا مسلم سوسائٹی میں مل سکتی ہے؟ ہمارے جرائد ومجلات یکے بعد دیگرے بند ہورہے ہیں۔ ہماری اردو کتابیں جو پہلے ایک ہزار کی تعداد میں چھپتی تھیں، اب صرف پانچ سو کی تعداد میں چھپتی ہیں کیونکہ کوئی خریدتا نہیں ہے۔بڑے سے بڑے مصنف ومحقق ومورخ کی کوئی قدر نہیں اگر وہ کسی بڑے منصب پر نہ بیٹھا ہو۔ہاں ،ہمارے محلّوں میں ریستوران ، کباب کے ٹھیلے اور دوا فروشوں کی دکانیں خوب چل رہی ہیں۔

ہاکنگ کا مذکورہ مقالہ کوئی ناول نہیں ہے بلکہ ’’مسلسل وسعت پانے والی خارجی دنیاؤں کے اوصاف‘‘ (Properties of Expandig Universes) کے بارے میں ہے (یہ وہی نظریہ ہے جسے قرآن پاک میں ’’وانا لموسعون‘‘ (الذاریات۴۷(کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے) ۔ اور یہ مقالہ ایک ایسے آدمی نے لکھا ہے جو چلنے، پھرنے، بولنے اور حتی کہ لکھنے سے بھی قطعاً معذور ہے۔ اس کی عبقریت کو دیکھتے ہوئے برطانوی حکومت اور معاشرے نے اس کو ہر طرح کی سہولت بہم پہنچائی ہے جس میں ایک عجیب وغریب کمپیوٹر بھی شامل ہے جو ہاکنگ کی دماغی لہروں کو سمجھ کر اسے کمپیوٹر پر الفاظ کی شکل دے دیتا ہے۔ ہاکنگ کے یہ خیالات نہ صرف سائنسی دنیا میں بہت اہمیت اور دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں بلکہ اکثر اخبارات کی سرخیوں کی زینت بھی بنتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ہاکنگ جیسا شخص کب کا کڑھ کڑھ کر مرچکا ہوتا یا کسی چور اہے پر معذوروں والی گاڑی میں بیٹھا بھیک مانگ رہا ہوتا۔ہمارے معاشرے میں کسی عبقری، جو معذور بھی نہ ہو، کے لئے بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ برسوں قبل امریکہ سے طب میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹرہر گوبند کھورا نااپنے ملک کی خدمت کے جذبے سے سرشارہندوستان واپس آگئے توحکومت نے ازراہ کرم خسروی انہیں ایک دیہی علاقے کی کلینک میں بحال کردیا۔ بیچارا اپنا ٹوٹا ہوا دل لے کر پھر امریکہ چلاگیا اور چند سالوں کے بعد جب اسے اپنی تحقیق پر نوبل انعام ملا تو ہندوستان میں اسے بڑے فخریہ انداز میں بیان کیا جانے لگا ۔اس کے جواب میں ڈاکٹر کھورانا نے صرف ایک لائن کا بیان جاری کیا:’’ یہ اعزاز  مجھے ایک امریکی شہری کی حیثیت سے ملا ہے‘‘۔

تقریبا نصف صدی قبل قاہرہ میں ہماری ملاقات ڈاکٹر عبدالقیوم سے ہوئی جو پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں معاشیات کے لکچرر تھے۔ ان کے صدر شعبہ نے اس انتہائی شریف انسان کو اتنا تنگ کیا کہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چھوڑ کر مصری گورنمنٹ کے معاشی اکسپرٹ کے طور سے بادل ناخواستہ قاہرہ چلے گئے۔ جلد ہی ان کو قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی نے لکچرر کے طورپر متعین کرلیا۔ کچھ ہی سال بعد امریکہ کی پورٹلینڈ یونیورسٹی نے ان کو پروفیسر کی حیثیت سے بلا لیا۔ برسوں بعد قاہرہ ہی میں ہماری ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی جب وہ تین سال کی مکمل تنخواہ  پر علمی چھٹی (sabbatical) پر تھے جو ان کی یونیورسٹی نے ان کو اپنے ایک معاشی نظریے پر کتاب لکھنے کے لئے دی تھی۔ ڈاکٹر عبدالقیوم کا انتقال جنوری ۲۰۱۶ میں ہوگیا۔ ان کے اعزاز میں ان کی امریکی یونیورسٹی نے ان کے نام پرایک اسکالر شپ جاری کررکھا ہے جو اس یونیورسٹی میں ریسرچ کرنے والے ہندوستانی طلبہ کو دیا جاتا ہے۔یہ ہے ایک امریکی یونیورسٹی کا معاملہ اس استاد کے ساتھ جسے خوداس کی اپنی مادر علمی نے تنگ کرکے ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔

اسی طرح کا معاملہ ہمارے ساتھ بھی اپنے وطن عزیز میں پیش آیا۔ میں بھی لندن میں بسی بسائی زندگی چھوڑ کر ۱۸ سال ملک سے باہر رہنے کے بعد آنکھوں میں بہت سے خواب سجائے وطن واپس آگیا۔ قاہرہ یونیورسٹی سے ایم اے اور مانچسٹر یونیورسٹی سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی حاصل کرنے ، مسلم انسٹی ٹیوٹ لندن کا سینئر فیلو ہونے، انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں آٹھ مقالے لکھنے اور بیسیوں انگریزی و عربی کتابوں کے مصنف و مترجم ہونے کے باوجود ہماری یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے مطالعات اسلامی نے ہمیں گھسنے نہیں دیا کہ مبادا اندر براجمان نیم خواندہ چرب زبان مافیائی گروہوں کے تسلط کو خطرہ نہ لاحق ہوجائے۔ اس طرح کے کئی تجربوں کے بعد تقریباً پچیس سال قبل ایک انٹرویو ہال سے نکل کر میں نے وہاں بیٹھے ہوئے دوسرے امیدواروں کے سامنے یہ اعلان کر دیا کہ میں اب کبھی دوبارہ کوئی درخواست نہیں دوں گا۔ان امیدواروں میں سے متعدد آج ’’پروفیسر‘‘ ہیں لیکن میں نے پھر کبھی کوئی درخواست نہیں دی۔ اس سے میرا تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا، لیکن ان اداروں کا     نقصان ضرور ہوا جہاں مجھے گھسنے نہیں دیا گیا کیونکہ میرے مصر ی اور برطانو ی تعلیمی تجربے سے طلبہ کو ضرور فائدہ ہوتا۔ جن اداروں میں مجھے گھسنے نہیں دیا گیا آج وہیں ریسرچ کے طلبہ کے لئے میری کتاب دلیل الباحث (اردو ایڈیشن:  اصول تحقیق) کا مطالعہ ضروری خیال کیا جاتا ہے۔

میری اپنی بات اتفاقیہ طور سے قلم پر آگئی ہے۔ جب میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا تو اپنے ذکر کا کوئی ارادہ نہیں تھا حالانکہ اللہ پاک نے مظلوم کو اپنے آواز بلند کرنے کا حق دیا ہے (سورۃ النساء ۱۴۸)۔بہر حال ضرورت ہے کہ ہم اپنے رویوں کو بدلیں۔ حقیقی علم رکھنے والوں اور اس کے متلاشیوں کے لئے راستے کھولیں اور ایسے مشغلے اپنائیں جو ہمیں دنیا کی قوموں کے سامنے سرخروکریں۔آج ہماری پہچان ایک ایسے گروہ کی ہوچکی ہے جو اپنی مادی اور دنیاوی خواہشات کو ہر صحیح اور غلط طریقے سے پورا کرنے میں مست ہے اور دوسروں کے مکمل طور پر خوشہ چیں ہونے پر پوری طرح مطمئن ۔

(مضمون نگار کے خیالات سے ادارئے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)
 

ایک نظر اس پر بھی

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

اترکنڑا میں جاری رہے گی منکال وئیدیا کی مٹھوں کی سیاست؛ ایک اور مندر کی تعمیر کے لئے قوت دیں گے وزیر۔۔۔(کراولی منجاؤ کی خصوصی رپورٹ)

ریاست کے مختلف علاقوں میں مٹھوں کی سیاست بڑے زورو شور سے ہوتی رہی ہے لیکن اترکنڑا ضلع اوراس کے ساحلی علاقے مٹھوں والی سیاست سے دورہی تھے لیکن اب محسوس ہورہاہے کہ مٹھ کی سیاست ضلع کے ساحلی علاقوں پر رفتار پکڑرہی ہے۔ یہاں خاص بات یہ ہےکہ مٹھوں کے رابطہ سے سیاست میں کامیابی کے ...

کارپوریٹ گھرانوں اور ہندوتوا کا ’سازشی گٹھ جوڑ‘، مودی حکومت میں ’کھیل‘ کے سبھی اصول منہدم!

فاشسٹ عناصر ہمارے جدید سماج میں رہتے ہیں، لیکن عموماً وہ بہت ہی چھوٹے طبقہ کے طور پر حاشیے پر پڑے رہتے ہیں۔ وہ مین اسٹریم میں تبھی آ پاتے ہیں جب انھیں اجارہ داری والی پونجی کی مدد ملے کیونکہ اسی سے ان عناصر کو اچھا خاصہ پیسہ اور میڈیا کوریج مل پاتا ہے۔ یہ مدد کب ملتی ہے؟ تب، جب ...

مسلم تھنک ٹینک: قوم مسلم کی ایک اہم ترین ضرورت ۔۔۔ از: سیف الرحمن

آج جب کہ پوری دنیا و اقوام عالم ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں اور پوری دنیا میں آگے بڑھنے کی مقابلہ آرائی جاری ہے جِس میں ہمارا مُلک ہندوستان بھی شامل ہے ، تو وہیں ملک کر اندر بھی موجود الگ الگ طبقات میں یہ دوڑ دیکھنے کو مل رہی ہے

عالمی کپ فٹبال میں ارجنٹینا کی شاندار جیت پر ہندی روزنامہ ہندوستان کا اداریہ

کھیلوں کے ایک سب سے مہنگے مقابلے کا اختتام ارجینٹینا  کی جیت کے ساتھ ہونا بہت خوش آئندہ اور باعث تحریک ہے۔ عام طور پر فٹبال کے میدان میں یوروپی ملکوں کا دبدبہ دیکھا گیا ہے لیکن بیس برس بعد ایک جنوبی امریکی ملک کی جیت حقیقت میں فٹبال کی جیت ہے۔

ہر معاملے میں دوہرا معیار ملک کے لیے خطرناک ۔۔۔۔ منصف (حیدرآباد) کا اداریہ

سپریم کورٹ کے حالیہ متنازعہ فیصلے کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کی سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ۔ مرکزی ایجنسی نے منی لانڈرنگ کیس میں ینگ انڈیا کے  دفاتر کو مہر بند کردیا۔  دہلی  پولیس نے کانگریس کے ہیڈ کوارٹرس کو عملاً  پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ راہول اور ...

نوپور تنازع: آخر مسلمان جوابی غلطیاں کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔۔تحریر:قمر وحید نقوی

دو ہفتے بعد نوپور شرما کے تبصرے کے تنازع پر ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے نے جس غصے کا اظہار کیا ہے وہ بالکل مضحکہ خیز اور سیاسی حماقت کا ثبوت ہے۔ اتنے دنوں بعد ان کا غصہ کیوں بھڑکا؟ کیا ان کے پاس اس سوال کا کوئی منطقی جواب ہے؟

تقسیم کی  کوششوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی و خیرسگالی پر زوردینا ضروری : ملک کے موجودہ حالات پر کنڑا روزنامہ ’پرجاوانی ‘ کا اداریہ

ملک کے مختلف مقامات پر عبادت گاہوں کے متعلق جو  تنازعات پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں و ہ دراصل سماجی اور سیاسی تقسیم کا مقصد رکھتی ہیں۔ ایسی کوششوں کے پیچھے معاشرے میں ہنگامہ خیزی پیدا کرنے کامقصدکارفرما ہےتو ملک کے سکیولرنظام کو کمزور کرنے کا مقصد بھی اس میں شامل ہے۔