سعودی کے نئے قانون سے ہندوستانی عوام سخت پریشان؛ 15 ماہ میں 7.2 لاکھ غیر ملکی ملازمین نے سعودی عربیہ کو کیا گُڈ بائی؛ بھٹکل کے سینکڑوں لوگ بھی ملک واپس جانے پر مجبور
بھٹکل:8/ جولائی (ایس او نیوز) سعودی عرب میں ویز ے کے متعلق نئے قانون کا نفاذ ہوتے ہی بھٹکل کے ہزاروں لو گ اپنی صنعت کاری، تجارت اور ملازمت کو الوداع کہتے ہوئے وطن واپس لوٹنے پر مجبورہوگئے ہیں۔ اترکنڑا ضلع کے اس خوب صورت شہر بھٹکل کے قریب 5000 لوگ سعودی عربیہ میں برسر روزگار تھے جن میں سے کئی لوگ واپس بھٹکل پہنچ چکے ہیں تو بہت سارے لوگ اب اپنے شہر کی راہ لینے کی تیار ی میں ہیں۔
سعودی عرب کے جدہ، ریاض، دمام، الخوبر، ینبع، الجبیل، رحیمہ سمیت کئی شہروں میں بھٹکلی مسلمان گذشتہ پچاس سالوں سے برسررورزگار ہیں، ان میں کئی لوگ اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہیں تو دیگر اپنے گھراور گھروالوں کی کفالت کے لئے گھر سے دور دراز قیام کئے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اپنی محنت کی کمائی میں بچت کرتے ہوئے سعودی کے مختلف شہروں میں خود کا کاروبار بھی شروع کیا ہے مگر اب انہیں نئے قانو ن اور نئے ٹیکس کی بندشوں سے دشواری محسوس ہونے لگی ہے۔
ٹیکس کا نیا قانون : تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ممالک میں سعودی عرب کی معیشت پوری طرح تیل پر ہی انحصار کرتی ہے، سعودی عرب، دبئی جیسے خلیجی ممالک کی معیشت کے لئے دنیا بھر کے سیاحوں کی آمدو رفت بڑی اہمیت رکھتی ہے،سیاحوں کی نقل وحمل سے ہونے والی کمائی وہاں کی حکومتوں کے لئے بڑی مدد ملتی ہے۔ ملک کو معاشی سطح پر مضبوط کرنے اور مقامی شہریوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لئے سعودی عرب نے اپنے قانون میں کئی ساری تبدیلیاں کی ہیں۔
ایس او سے گفتگو کرتے ہوئے بھٹکل مسلم جماعت جدہ کے سابق سرگرم رکن عبدالحفیظ عسکری نے بتایا کہ نیا قانون بننے سے پہلے سعودی عرب میں قیام پذیر فی خاندان کو ہر 6 ماہ میں 200ریال فیس دینا ہوتا تھا مگر اب نئے قانون کے مطابق ایک خاندان کے بجائے ہرایک فرد پر ماہانہ 200ریال فیس ادا کرنا ہوگا۔
عبدالحفیظ کے مطا بق جس طرح بھارتی شہریوں کے لئے ’’آدھار کارڈ ‘‘ ہے اسی طرح وہاں غیر ملکی شہر یوں کے لئے ’’اقامہ ‘‘ کارڈ ہے۔ پہلے اقامہ کے لئے 550ریال دینے ہوتے تھے مگر اب اقامہ کے لئے 5500ریال ادا کرنا ہوگا۔ ان کے مطابق چھٹیوں پر انڈیا جانے کی صورت میں پاسپورٹ پر انٹری اور ایکزٹ کے لئے پہلے کوئی چارج نہیں لگتا تھا، اب فی پاسپورٹ دو سو ریال ماہانہ کے حساب سے چارج کیا جارہا ہے۔ ان کے مطابق اگر اُنہیں اپنی پوری فیملی کے ساتھ تین ماہ کے لئے انڈیا جانا ہوتوانہیں اپنے ساتھ بیوی اور چار بچوں کے لئے ماہانہ دو سو ریال کے حساب سے تمام چھ ممبران کی فیس (دو سو ریال X چھ ممبران X تین ماہ) 3600 ریال ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر انڈیا میں چھ مہینہ رہنا ہو تو 7200 ریال ادا کرنے ہوں گے۔ (7200 ریال مطلب 132,048انڈین روپیہ)۔
جناب عبدالحفیظ نے بتایا کہ لوگوں کی تنخواہیں اتنی نہیں ہیں کہ وہ نئی اضافی فیسوں کا بوجھ اُٹھا سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ قریب 30 سال سے سعودی میں اکائونٹنٹ کی حیثیت سے کام کررہے تھے، مگر نئے قانون سے پریشان ہوکر اپنی پوری فیملی کے ساتھ واپس بھٹکل آگئے ہیں۔
یہ تو انفرادی سطح پر ہوا ،تجارت ، ملازمت اور صنعت کی بات کریں تو حالات مزید ابتر ہے ۔سعودی عربیہ کے ایک معروف بھٹکلی بزنس مین قمر سعدا نے بتایا کہ جس طرح غیر ملکی ملازمین پر نئے چارجس عائد کئے گئے ہیں اُسی طرح بزنس کرنے والوں کے لئے بھی قانون میں زبردست تبدیلیاں کی گئ ہے۔ قمر سعدا کے مطابق سعودی عرب کی وزارت برائے محنت اور وزارت برائے سماجی ترقی نے کچھ ماہ قبل ایک بڑا فیصلہ لیتے ہوئے سعودی میں کام کر رہے تارکین وطن کو 12 شعبوں میں ملازمت کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس فیصلے کے بعد سعودی میں مقیم 30 لاکھ سے زائد ہندوستانیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
سعودی ذرائع کے مطابق محنت اور سماجی ترقی کے وزیر ڈاکٹر علی الغفیث نے گزشتہ ماہ ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے ان 12 شعبوں کا تذکرہ کیا جس میں اب تارکین وطن کام نہیں کر پائیں گے۔جس کے مطابق گھڑی کی دکان، چشمے کی دکان، میڈیکل اسٹور، الیکٹریکل اور الیکٹرانک دکان، کار اسپیئر پارٹس، بلڈنگ میٹریل، کارپیٹ، آٹو موبائل اور بائیک دکان، ہوم فرنیچر اور ریڈیمیڈ آفس میٹریل، ریڈیمیڈ گارمنٹ، برتن کی دکان، کیک اور پیسٹری۔یہ تمام بارہ شعبے اب صرف وطنی لوگ ہی سنبھال سکیں گے اور ہندوستانی یا غیر ملکی ان میں سے کوئی بھی اپنے طور پر بزنس نہیں کرسکیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ اس قانون کو نافذ کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے اورسعودی حکومت کے ذریعہ جاری اس حکم نامے پر ستمبر 2018 سے عمل کیا جائے گا۔
ایس او سے گفتگو کرتے ہوئے جناب تاج الدین عسکری نے بتایا کہ وہ گذشتہ چالیس سالوں سے سعودی عربیہ میں برسرروزگار تھے۔ ان کے مطابق اب نئے قوانین سے ہزاروں کی تعداد میں ایشیائی ممالک کے لوگ سعودی کو خیرباد کہتے ہوئے واپس اپنے وطن لوٹ رہے ہیں، مزید بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں 45 ہزار ریال کی ایک کار خریدی تھی، مگر جب نیا قانون بنا اور مجھے واپس انڈیا آنا پڑا تو اُس کار کو بحالت مجبوری صرف 6 ہزار ریال میں بیچنا پڑا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جو لوگ سعودی کو خیر باد کہہ کر وطن واپس لوٹ رہے ہیں، اُنہیں اپنے گھر کے فرنیچرس، برتن اور کئی قیمتی چیزوں کو بھی ایسے ہی چھوڑ کر واپس جانا پڑ رہا ہے، جس کے وہاں کوئی خریدار نہیں مل رہے ہیں۔
سات لاکھ سے زائد غیر ملکیوں کے انخلاء سے سعودی عربیہ میں بزنس ٹھپ پڑگیا ہے، بازاراور مارکیٹ سنسان ہیں،کئی اسکول اور کالجس بند ہونے کے درپے ہے۔ جن لوگوں کی دکانیں ہیں، اُنہیں نئے قانون کے مطابق ستمبر تک خالی کرنا ہے اور جن لوگوں کا کاروبار 12 شعبوں میں شامل نہیں ہیں، وہ بھی بازاروں میں گاہک نہ ہونے سے پریشان ہیں۔
ریاست کے دیگر مقامات سے ساحلی پٹی کے شہر بھٹکل سے موازنہ کریں تو بھٹکل سے خلیجی ممالک کا رشتہ کچھ زیادہ ہی ہے ،سعودی عرب میں نافذ نئے قانون کی وجہ سے گذشتہ ایک ہفتہ میں 20 سے زائد خاندان سعودی عرب کو خیر آباد کہتے ہوئے اپنے وطن بھٹکل پہنچے ہیں۔ وہاں رہائش پذیر کنڑیگاس کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں کی بات کریں تو سعودی عرب کی صنعت ، تجارت وغیرہ مکمل طورپر ختم ہوتی جارہی ہے۔
سمجھا جارہا ہے کہ سعودی عربیہ کے نئے قانون سے غیر ملکی بالخصوص سعودی میں رہائش پذیر ہندوستانی عوام سخت پریشان ہیں اور اُن کے لئے واپس انڈیا جانے کے علاوہ اب دوسرا کوئی چارہ باقی نہیں بچا ہے۔
خبر ہے کہ اب تک بیس سے زائد بھٹکلی فیملی سعودی کو خیر باد کہتے ہوئے واپس بھٹکل آچکی ہے اور واپس آنے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ اس بات کی بھی اطلاع ہے کہ اکثر لوگوں نے حج کرکے واپس لوٹنے کا ارادہ کیا ہے، جبکہ کئی لوگوں نے اپنی فیملی کو بھٹکل چھوڑ کر نئی اُمیدوں کے ساتھ واپس سعودی بھی گئے ہیں ۔ غالباً اُنہیں توقع ہے کہ سعودی مارکٹ کی خراب پوزیشن کو دیکھتے ہوئے سعودی قانون میں تھوڑی بہت نرمی لائی جاسکتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کے لوگ سعودی عربیہ میں چالیس اور پچاس سال سے ملازمت کررہے ہیں اور اچھی تنخواہ ملنے کی وجہ سے سالوں سال وہیں پر مقیم ہیں۔بتایا جارہا ہے کہ اس سے سعودی باشندوں کو ملازمت ملنے میں دشواریاں پیش آنے لگیں جس کے پیش نظر سعودی حکومت نے یہ فیصلہ لیا ہے۔
سعودی عرب سے 2017 سے 2018 کی پہلی سہ ماہی کے اختتام تک 7 لاکھ سے زائد غیرملکی ملازمین سعودی عربیہ کو گڈ بائی کرچکے ہیں اور روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ واپس اپنے ملک جانے پر مجبور ہیں۔ میڈیا رپورٹ پر بھروسہ کریں تو 2600 غیرملکی یومیہ کی بنیاد پر سعودی عربیہ کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق 2017 کے آغاز سے تاحال 7.2لاکھ غیر ملکی مزدور سعودی عربیہ سے نکل چکے ہیں ۔
دوسری جانب 2018 کی پہلی سہ ماہی (جنوری سے مارچ) کے اختتام پر سعودی شہریوں میں بیروزگاری کی شرح 12.9 فیصد تک پہنچ گئی، 1.07 ملین سعودی روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔محکمہ شماریات کے سربراہ ڈاکٹر فہد التخیفی نے پریس کانفرنس میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رواں سال کے ابتدائی 3 ماہ کے دوران 2لاکھ 34ہزار سے زائد غیرملکی سعودی عربیہ سے نکل چکے ہیں۔ سعودی مردوں میں بیروزگاری کی شرح 7.6 فیصد اور خواتین میں 30.9 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ اعدادوشمار 2018 کی پہلی سہ ماہی کے ہیں۔