گوری لنکیش کا نہیں ،جمہوریت کا قتل .. ۔۔۔ . روزنامہ سالار کا اداریہ
ہندوستان میں بڑھتی ہوئی نفرت ، عدم رواداری اور عدم برداشت کی مسموم فضاؤں نے گزشتہ 3سال کے دوران کئی ادیبوں ، قلم کاروں اور سماجی کارکنوں کی جانیں لی ہیں اور اس پر مرکزی حکومت کی خاموشی نے آگ میں گھی کا کام کیا ہے۔ ڈحابولکر پنسارے اور کلبرگی کے بعد نکسلیوں کو انسانیت کے دائرے میں لانے کیلئے انتھک جدوجہد اور آر ایس ایس و بی جے پی اور بجرنگ دل کے انتہا پسندانہ کردار کے خلاف اپنے قلم کے ذریعہ آواز اٹھا کر حکومت وقت کی نیند حرام کرنے والی معروف صحافی گوری لنکیش کا قتل اس بات کی علامت ہے کہ سنگھ پریوار جیسی انتہا پسند تنظیمیں اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبادے گی اور چاہے جس پارٹی کی سرکار ہو وہ خاموش تماشائی بنی رہے گی۔ گزشتہ 2دن قبل معروف اور بے باک صحافی گوری لنکیش کو ان کے گھر کے پاس نا معلوم افراد نے گولی مار کر قتل کردیا ، جس کی صحافی برادری سمیت پوری دنیا مذمت کررہی ہے اور بنگلورو سمیت ریاست اور ملک کے مختلف مقامات پر قتل کے خلاف احتجاجات ہورہے ہیں۔ ریاستی وزیر اعلیٰ سدارامیا نے بھی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور اس کی یقین دہائی کرائی ہے قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ معروف ادیب ایم ایم کلبرگی کے قاتلوں کا اب تک سراغ کیوں نہیں لگا؟ گوری لنکیش کے قاتلوں کے سراغ لگانے کے حکومتی دعوے پر عوام کیوں یقین کرے؟۔ پوری پولیس انتظامیہ کسی کو فرضی تصادم میں پھنسانے ، بم دھماکے کے بعد ایک خاص طبقہ کے بچوں کو گرفتار کرنے اور حکومت وقت کا جوتا اٹھانے میں ہی سرگرم نظر آتی ہے۔ صحافی گوری لنکیش سنگھ پریوار اور بی جے پی کے خلاف جرأت کے ساتھ لکھتی رہی ہیں۔ 2014ء کے لوک سبھا میں اکثریت سے جیتنے اور مرکزپر براجمان مودی جی کے آنے کے بعد سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں کے حوصلے بڑھے ہیں۔ جس کا اندازہ گزشتہ 3برسوں میں نرنیدر دابھولکر، گواند پنسارے اور ایم ایم کلبرگی کے قتل اور مسٹر کے ایس بھگوان کو قتل کی دھمکی سے ہوتا ہے۔ نریندر دابھولکر اس لئے قتل کئے گئے کہ انہوں نے مہاراشٹر میں اندھ وشواس نرمولن سمیتی بنائی تھی۔ گووند پنسارے نے شیواجی پر کتاب لکھی تھی جس سے کچھ تنگ نظر لوگ ناخوش تھے ۔ کلبرگی کا قتل اس لئے ہوا کہ انہوں نے ذات اور فرقہ پرستی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ صحافی گوری لنکیش کا قتل اس لئے ہوا کہ وہ ہندو انتہا پسندانہ نظریات کے خلاف تھیں۔ یہ چاروں دانشور اصلاح پسند تھے، تشدد پسندی اور تنگ نظری کے خلاف تھے ۔ اسی لئے اس تنگ نظری کا شکار بن گئے جو آر ایس ایس نے ہندو نوجوانوں میں ’قوم پرستی‘ کے نام پر پیدا کردی ہے اور جس کے جنونی کارکنان پورے ملک میں تحفظ گائے کے نام پر تشدد پھیلارہے ہیں۔ معروف ادیب ایم ایم کلبرگی کے قتل کے بعد رام سینا کے ایک لیڈر نے قاتل کی اسی طرح تعریف کی تھی جس طرح ہندوستان کو ہندوراشٹربنانے کیلئے سرگرم چند انتہا پسند گاندھی جی کے قاتل گوڈ سے کی تعریف کرتے ہوئے آرہے ہیں۔ آزادی انسان کے بنیادی حقوق میں ایک ہے جنہیں انسانیت کا فطری خاصہ مانا جاتا ہے، اور ہر مہذب حکومت نے انسان کے اس فطری حق کا پاس و لحاظ رکھا ہے، خود ہمارے ملک ہندوستان جو مختلف افکار و مذاہب اور تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہے، کے آئین نے انسانی آزادی کی پاسداری کی ہے۔ اسی سے ہندوستان کی شناخت بنی ہے۔ جہاں رنگ و نسل سے مختلف تمام مذاہب کے لوگ بستے ہیں اور جہاں سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن آزادئی اظہار رائے کے لحاظ سے موجودہ حالات ہندوستانیوں کیلئے بہت خطرناک ہیں۔ ایک طبقہ اپنی خامیوں اور کمیوں کے خلاف کچھ سننا نہیں چاہتا ، اگر کوئی اس کے خلاف دلائل و براہین کے ساتھ اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کرنا ہے تو اسی کو اس دنیا سے ہی اٹھا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ صرف مٹھی بھر لوگ ہیں لیکن جمہوریت پسندوں کی سستی اور کاہلی کی وجہ سے وہ پورے ہندوستان میں تشدد کا بازار گرم کررہے ہیں۔ انسانیت سوزوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کسی ایک شخص کو قتل نہیں بلکہ وہ اس سوچ کو ختم کرنے کے درپے ہے جس نے ہندوستان جیسے جمہوری ملک کو اپنے خون سے سینچا ہے۔ اہل قلم ہی معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو آنے والی نسلوں کو مثبت سوچ منتقل کرتے ہیں۔ اگر ان کے تحفظ میں ذرا برابر بھی ڈھیلائی برتی گئی تو انسانیت کے خاتمہ میں دیر نہیں لگے گی۔ ایسے اندوہناک حالات میں متحد ہوکر تمام جمہوریت اور انسانیت پسندوں کو آگے آنا ہوگا اور اس وقت تک سخت گیر عناصر کے خلاف لڑائی جاری رکھنی ہوگی جب تک کہ قاتلوں کا سراغ نہ لگ جائے۔ حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کرنے والے ملک و قوم اور انسانیت و جمہوریت کے دشمن ہیں ایسے عناصر کے خلاف ہم سب کو مل کر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ تبھی ہندوستان میں ایک پرامن فضا قائم ہوگی اور ہر باشندہ حق کیلئے اپنی آواز بلند کرے گا۔
(بشکریہ روزنامہ سالار، مورخہ 7/ستمبر 2017)
(مہمان اداریہ کے اس کالم میں دوسرے اخبارات کے ادارئے اوراُن کے خیالات کو پیش کیا جاتا ہے ، جس کا ساحل آن لائن کے ادارئے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)