نجی اسپتالوں پر لگام کسنے کیلئے اسمبلی میں بل پیش،اس قانون کا مقصد ڈاکٹروں سے انتقام یا نفرت نہیں : رمیش کمار
بنگلورو، 20؍جون (ایس او نیوز)نجی اسپتالوں پر لگام کسنے کے مقصد سے کرناٹکا پرائیویٹ میڈیکل اسٹابلشمنٹ ترمیمی بل 2017 کو منظور کرنے میں وزیر صحت رمیش کمار نے تمام سیاسی جماعتوں کا تعاون طلب کیا ہے۔ آج ریاستی اسمبلی میں اس بل کو لے کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مسٹر رمیش کمار نے کہاکہ یہ قانون اچانک نہیں لایا جارہاہے، بلکہ بارہا رونما ہونے والے واقعات کے مد نظر یہ قدم اٹھایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس بل کا مقصد ڈاکٹروں سے انتقام لینا یا ان کے تئیں نفرت کا جذبہ عام کرنا قطعاً نہیں ہے۔ غلط فہمی کے نتیجہ میں نجی اسپتالوں کے انتظامیہ اور ڈاکٹروں نے اس بل کے خلاف احتجاج کیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جمہوری نظام کے تحت ان ڈاکٹروں سے بھی مشورہ کے بعد ہی یہ قانون ترتیب دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ اسپتالوں میں بھاری رقومات کی وصولی اور غریب مریضوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے پیش نظر یہ قانون لانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ رمیش کمار نے اسپتالوں میں پیش آنے والے واقعات جب ایوان میں تفصیل سے بیان کئے تو بہت سارے ممبران نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے ہاں میں ہاں ملائی، ان کے خیالات پر اراکین کا اتفاق یہی ظاہر کرتا رہا کہ ایوان میں یہ بل متفقہ طور پر منظور ہوگی۔رمیش کمار نے کہاکہ عوامی مفادات کے تحفظ کی خاطر اس قانون کو منظوری دی جائے۔ وزیر موصوف نے کہاکہ قانون بنتے ہی سبھی ڈاکٹروں کو جیل بھیج دیا جائے گا یہ تاثر غلط ہے۔ اس سلسلے میں نجی ڈاکٹروں اور اداروں کے سربراہوں نے جو تاثر پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ بھی غلط ہے۔ 1976 میں ہی ایسا قانون لایا جاچکا ہے، 2007میں بھی اس طرح کا قانون لاگو کیاگیا۔انہوں نے کہاکہ نجی اسپتال ہی الگ ہیں اور پروفیشنل ڈاکٹرس ہی الگ ہیں ان دونوں کو ایک صف میں کھڑا نہیں کیاجانا چاہئے۔جن اداروں کی طرف سے رقم وصول کی جارہی ہے حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے جارہی ہے ، نہ کہ ڈاکٹروں کے خلاف اس قانون کے تحت سرکاری اسپتالوں کو اس لئے نہیں لایا گیا کہ یہ اسپتالیں حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ اسپتال میں مقرر ہونے والے ڈاکٹر اور عملہ سرکاری عملہ کہلاتے ہیں۔ ان کے تقرر کے مرحلے میں ہی ان پر بہت ساری شرائط رہتی ہیں اسی لئے سرکاری اسپتالوں کو اس قانون کے تحت لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر سرکاری اسپتالوں میں دھاندلی ہوتی ہے تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ نجی اسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کی بیماری کیا ہے اور ان پر کیا خرچ ہوگا اس کیلئے اب تک کوئی نظام موجود نہیں تھا۔اس قانون کے بعد یہ لازمی ہوگا کہ کس بیماری کے کس علاج کیلئے کتنی رقم وصول کی جائے گی وہ اسپتالوں کو نمایاں طور پر درج کرنا ہوگا ۔انہوں نے کہاکہ قلبی آپریشن کیلئے مختلف قسم کی شرحیں طے کی گئی ہیں، اسٹنٹ لگانے کیلئے جئے دیوا اسپتال میں 50ہزار روپے مقرر ہے تو نجی اسپتالوں میں دو لاکھ روپے وصول کئے جاتے ہیں تو کیا اس پر کارروائی کرنا غلط ہے؟۔ انہوں نے کہاکہ مریضوں سے بھاری رقم وصول کرنے کے مرتکب ڈاکٹروں پر 25ہزار روپے اور ادارہ پر پانچ لاکھ روپیوں تک کا جرمانہ اور ڈاکٹروں کو چھ ماہ سے تین سال تک کی قید کی گنجائش اس قانون میں موجود ہے۔ مغربی بنگال میں جرمانہ کی حد دس لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ تمام سرکاری اسپتالوں میں جنرک دواؤں کی دکانیں قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ مرکزی وزیر اننت کمار کے ساتھ اس کیلئے معاہدہ بھی ہوا ہے۔ان دکانوں سے مریضوں کو کم قیمت پر دوائیں ملیں گی، اور ساتھ ہی مجموعی طور پر دواؤں کی قیمتوں میں70تا75فیصد گراوٹ آئے گی۔