سعودی عربیہ سے واپس لوٹنے والوں کو راحت دلانے کا وعدہ ؛ کیا وزیر اعلیٰ کمارا سوامی کو کسانوں کا وعدہ یاد رہا، اقلیتوں کا وعدہ بھول گئے ؟
بھٹکل12؍جولائی (ایس اونیوز) انتخابات کے بعد سیاسی پارٹیوں کو اقتدار ملنے کی صورت میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا بہت اہم ہوتا ہے۔ جنتادل (ایس) کے سکریٹری کمارا سوامی نے بھی مخلوط حکومت میں وزیرا علیٰ کا منصب سنبھالتے ہی کسانوں کا قرضہ معاف کرنے کا انتخابی وعدہ پورا کردیااور عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کا پہلا مرحلہ طے کرلیا۔ مگر اقلیتوں کے تعلق سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے تعلق سے ابھی وہ توجہ دیتے نظر نہیں آرہے ہیں۔
حالیہ اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم کے دوران معلق اسمبلی کا خواب دیکھتے ہوئے کانگریس کے ووٹ بینک کو توڑنا اور اس کی نشستیں ممکنہ حد تک کم کرنا کمار سوامی کی پالیسی تھی۔ اسی کے تحت وہ اقلیتی ووٹ بینک پر نظر جمائے ہوئے تھے اور اسے بڑی مقدار میں کانگریس کے لئے جانے والے ووٹ مان کر منگلورو کے سیاست دان فاروق باوا کے توسط سے توڑنے کی ہر ممکن کوشش کررہے تھے۔
اپنے منصوبے کے تحت انہوں نے بھٹکل کا بھی دورہ کیا اور یہاں کے مسلمانوں کے مرکزی ادارے تنظیم کے ساتھ کافی لمبا وقت گفت وشنید میں گزارا اور اپنی پارٹی اور اپنے امیدوار کی جیت کا تیقن حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اقلیتوں کے مسائل کو ترجیحی طور پر حل کرنے کا سگنل دیا۔ اس موقع پر بھی انہوں نے فاروق باوا کو بنگلور و سے خصوصی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھٹکل بلا لیا تھا۔ چونکہ ایک گرما گرم موضوع سعودی عربیہ کے نئے قوانین سے پریشان ہوکر وہاں سے واپس لوٹنے والوں کا تھا۔ فاروق باوا کے توسط سے یہ کمار سوامی کے کانوں میں ڈالا گیا کہ جلد ہی بھٹکل کے مسلمان اس پریشان کن مسئلے کا شکار ہونے والے ہیں۔ پھر کمارا سوامی نے اس پس منظر میں عوامی خطاب کے دوران کہا کہ :’’اپنے ماں باپ اور گھر والوں کو چھوڑ کر یہاں کے لو گ خلیجی ممالک میں ملازمتیں کررہے ہیں۔ وہ لوگ اب وہاں کے نئے قانون کی پیچیدگیوں میں پھنس گئے ہیں۔ ان کے لئے اب ممالک کو الوداع کہہ کر اپنے دیش لوٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔ جبکہ ہماری پڑوسی ریاست کیرالہ کی حکومت خلیجی ممالک سے واپس لوٹنے والے وہاں کے شہریوں کو سہارا دینے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔ان کی بازآبادکاری اور ترقی کے لئے خصوصی منصوبے بنارہی ہے۔ہمارے یہاں بھٹکل ، اڈپی، منگلورو سمیت کرناٹکا کے ساحلی علاقے کے 40تا50ہزار افراد اس قسم کی مصیبت کا شکار ہوگئے ہیں۔اگر ہماری حکومت بنے گی تو پھر ایسے لوگوں کو مالی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ زندگی بسر کرنے کے لئے تمام ضروری سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔‘‘کمارا سوامی کا یہ بیان سن کر یہاں کے عوام نے فطری طور پربڑی راحت اور مسرت محسوس کی تھی۔
اپنی منصوبہ بندی کے مطابق انتخاب کانتیجہ معلق اسمبلی کی صورت میں نکلنے کی وجہ سے کماراسوامی نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا ہے ، تو پھر انہیں اقلیتوں سے کیے گئے اپنے اس وعدے کو بھی پورا کرنا چاہیے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنا یہ انتخابی وعدہ بھول چکے ہیں۔