غیر اعلان شدہ ایمرجنسی کا کالا سایہ .... ایڈیٹوریل :وارتا بھارتی ........... ترجمہ: ڈاکٹر محمد حنیف شباب
ہٹلرکے زمانے میں جرمنی کے جو دن تھے وہ بھارت میں لوٹ آئے ہیں۔ انسانی حقوق کے لئے جد وجہد کرنے والے، صحافیوں، شاعروں ادیبوں اور وکیلوں پر فاشسٹ حکومت کی ترچھی نظر پڑ گئی ہے۔ان لوگوں نے کسی کو بھی قتل نہیں کیا ہے۔کسی کی بھی جائداد نہیں لوٹی ہے۔ گائے کاگوشت کھانے کا الزام لگاکر بے قصوروں کا قتل بھی نہیں کیا ہے۔ قتل کرکے لوٹنے والوں کو ہار پہناکر عزت افزائی بھی نہیں کی ہے۔ لیکن دلتوں، آدی واسیوں، عورتوں اور ناانصافیوں کا شکار ہونے والوں کے حق میں آواز اٹھانا ہی انہیں قید کرنے کا سبب بنا ہے۔پرسوں پولیس نے اچانک شاعر ورواراؤ، صحافی گوتم نولاکھا، وکیل سدھا بھاردواج، ارون پیریرا اور ویرنن گونسالویز کو گرفتا ر کرلیا۔مصنف آنند تیل تمبڑے کی گرفتاری بھی طے ہے۔ مودی کے قتل کی سازش رچنے کا الزام ان کے سر تھوپا گیا ہے۔ دابولکر، پنسارے، کلبرگی ، گوری لنکیش قتل کے ملزمین ،ان کے پیچھے رہنے والی تنظیموں کا بھانڈہ کرناٹکا ایس آئی ٹی کی طرف سے پھوڑے جانے کے بعد حکومت نے یہ نیا انکشاف کیا ہے۔
اب سیاسی پارٹیوں ، عوام کی حامی تنظیموں کو بولنا چاہیے۔ خاموش رہنے پر بہت سنگین خطرہ لاحق ہونے والا ہے۔یہ انتہائی قابل مذمت اقدام ہے کہ دلتوں، آدی واسیوں، پچھڑے ہوئے طبقات اور خواتین کے حق میں جد وجہد کرتے ہوئے ان کے دکھ درد میں ساتھ دینے والے دانشوروں کو کسی بھی قسم کا واضح ثبوت نہ ہونے کے باوجودگرفتار کرلیا گیا ہے۔جمہوریت پر یقین نہ رکھنے والی ایک بے شرم حکومت کی طرف سے کیا گیایہ جبرو استبداد اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔گؤ رکھشا کے نام پر گلی کوچوں میں انسانوں کو قتل کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرکے، انہیں پھولوں کی مالائیں پہناکر عزت افزائی کرنے والی اس حکومت نے مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لئے گرفتاریوں کاسلسلہ شروع کیا ہے۔
جب سے مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے عوام کا اطمینان و سکون ہی جیسے غائب ہوگیا ہے۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں دلت طلبہ پر ظلم و ستم کے منصوبے،روہت ویمولا کی افسوسناک موت، دہلی جواہر لال یونیورسٹی میں چلا ہوا جبر وستم کا سلسلہ، کنہیا کمار، عمر فاروق پر ہونے والے حملے، حال ہی کے دنوں میں سوامی اگنیویش پر ہونے والا حملہ ، بھیما کورے گاؤں میں شہیدوں کے یادگار کو سلامی دینے کے لئے پہنچے ہوئے دلتوں کے خلاف ہونے والا تشدد، اس کا سبب بننے والوں کوتحفظ دینے کے علاوہ اس معاملے میں سریندرا گاڈلنگ، شوما سین، رونا ولسن، مہیش راوت اور مرہٹی شاعر سدھیر دؤلے جیسے عوامی مفاد کے لئے جد وجہد کرنے والوں اور دانشوروں کی غیر ضروری طور پر گرفتاریاں کی گئی تھیں۔
اب اچانک ۶ دانشوروں کی گرفتاریوں کا سبب کیا ہے؟ مہاراشٹرا کے اندھی عقیدت کے خلاف جد وجہد کرنے والے نریندر دابولکر، دانشور گووند پنسارے، کرناٹکا کے محقق ڈاکٹر ایم ایم کلبرگی اور صحافی گوری لنکیش قتل معاملات میں کرناٹکا ایس آئی ٹی نے سناتن سنستھا سے جڑے ہوئے قصورواروں کو گرفتار کیا۔گمان کیا جاتا ہے کہ اس کے بعد مودی سرکار نے شائدعوام کا دھیان دوسری طرف ہٹانے کے لئے منگل کے دن گرفتاریوں کا یہ سلسلہ شروع کیاہے۔ مودی سرکار نے عوام سے کیے گئے کسی بھی وعدے کو پورا نہیں کیا ہے۔اس لئے لگتا ہے کہ اپنی ناکامیاں چھپانے کے لئے یہ سازش کی کہانی گھڑی گئی ہے۔چاہے معاملہ جو بھی ہو، لیکن انسانی حقوق کی لڑائی لڑنے والوں کی گرفتاریاں قابل مذمت ہیں۔انہیں فوری طور رہا کیا جانا چاہیے۔
اس ملک کے نیشنلائزڈ بینکوں کودھوکہ دے کر کروڑوں روپوں کی لوٹ مچانے کے بعد بیرون ملک فرار ہونے والے نیرو مودی، وجئے ملیاجیسے بہت سارے کارپوریٹ تاجر وہاں پر بڑے سکون او ر آرام سے زندگی بسر کررہے ہیں۔ لیکن اس ملک میں کسی کے ساتھ بھی دھوکہ دہی نہ کرنے والے ، کسی کے بھی قتل میں ملوث ہونے کاالزام نہ رکھنے والے مشہور شاعروں، وکیل بھاردواج، ورواراؤ، آنند تیل تمبڑے وغیرہ پر قتل کی سازش رچنے کا الزام لگاکر گرفتار کرنا قابل مذمت ہے۔ آدی واسیوں کے مفادات کے لئے جدوجہد کرنے والی سدھا بھاردواج نے شنکر گووا نیوجی کے قائم کردہ چھتیس گڑھ مکتی مورچہ میں اپنے آپ کو ملوث کررکھاتھا۔ 2000 ء سے انہوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا تھا۔ اس وقت سے کسانوں، آدی واسیوں، مزدوروں اور غریبوں کے جنگلاتی حقوق، ماحولیاتی حقوق سے متعلقہ معاملات میں جدوجہدکرتی آئی ہیں۔ آدی واسیوں کے حق میں عدالت میں وکالت کرنے کے لئے ہائی کورٹ نے بھی انہیں اجازت دے رکھی ہے۔ سدھا بھاردواج دہلی کی لاء یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کی خدمات بھی انجام دے رہی ہیں۔
انسانی حقوق کے لئے جدوجہدکرنے والوں پر حملہ کرنے کا مقصد بالکل صاف ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں پولیس کی طرف سے کی گئی ان کارروائیوں کا نشانہ بننے والے تمام سرگرم کارکنان سماج کے انتہائی غریب اور پسماندہ افراد کے مفادات کی لڑائی میں مسلسل مصروف تھے۔یہ لوگ ملک کے دستور کے حدود میں رہتے ہوئے اپنی سرگرمیاں انجام دے رہے تھے۔ایسے افراد کی گرفتاری لائق مذمت ہے۔ اب گرفتار کیے گئے گوتم نولاکھاایک نامور صحافی ہیں۔ ابھی حال ہی میں مودی سرکار کے ریفیئل جنگی ہوائی جہاز خریداری اسکینڈل کا پردہ فاش کیا تھا۔ ایسے لوگوں کو نشانہ بناکر گرفتار کرنے کی مذمت کی جانی چاہیے۔
جمہوریت میں عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف کھل کر سرگرم رہنے والے حقوق انسانی کے کارکنان کو اربن نکسلائٹ کا نام دے کر انہیں مجرم بناکر پیش کرنے کا اقدام مذموم حرکت ہے۔ جمہوریت نوازوں کو اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔
مرکز میں جب سے نریندرامودی سرکار آئی ہے وہ اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دباتی رہی ہے۔ کارپوریٹ کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والی یہ حکومت اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے آدی واسیوں اور دلتوں کو نشانہ بناکر ان پر ستم ڈھانے کا کام کیا ہے۔
سوشلسٹ سیکیولر جیسے بھارت کی منووادی ہندوراشٹرا میں تبدیلی کا منصوبہ رکھنے والے سنگھ پریوار کی خفیہ پالیسی پرعمل پیرائی کے لئے اس حکومت نے جمہوریت کے حقوق کی پامالی شروع کردی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اس کی مخالفت کریں۔
(اداریہ: کنڑا روزنامہ وارتھا بھارتی ، مینگلور بتاریخ 30/ اگست 2018 ..... ترجمہ: ڈاکٹر محمد حنیف شباب برائے ساحل آن لائن)