عوام کوآمدنی جاننے کاحق،عوامی نمائندے کاروبارکس طرح کرسکتے ہیں؟سپریم کورٹ کاتلخ سوال،بدعنوان لیڈروں کے خلاف تیزی سے جانچ کی ہدایت
نئی دہلی،12؍ستمبر(ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا)سپریم کورٹ نے کچھ ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کی جائیداد میں 500گنا تک کے اضافہ پرسوال اٹھایاکہ اگررہنمااوراراکین اسمبلی یہ بتا بھی دیں کہ ان کی آمدنی میں اتنی تیزی سے اضافہ بزنس سے ہوا ہے، تو سوال اٹھتا ہے کہ رہنمااور کاروبار کس طرح قانون سازبن سکتاہے؟۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اب وقت آگیاہے یہ سوچنے کا کہ بدعنوان رہنماؤں کے خلاف کس طرح جانچ ہو اور تیزی سے فاسٹ ٹریک کورٹ میں سماعت ہو۔سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ آج سے سالوں پہلے NNکی وورا کی رپورٹ آئی تھی، آپ نے اس پر کیا کام کیا؟ مسئلہ یہ ہے کہ آج یہ ہے۔آپ نے رپورٹ کے بارے میں کچھ نہیں کیا۔سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ عوام کو یہ جاننا چاہئے کہ رہنماؤں کی آمدنی کیاہے، یہ پوشیدہ رکھی گئی ہے اور پوشیدہ رکھی جاتی ہے۔اب سپریم کورٹ فیصلہ کرے گا کہ پچرچہ نامزدگی داخل کرتے کے وقت امیدواراپنی اور اپنے خاندان کی آمدنی کا ذریعہ ظاہرکرے یانہیں۔سپریم کورٹ نے این جی اوکی درخواست پرفیصلہ کیاہے۔کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے CBDTکے اس مہر بند لفافے کوکھولا جس میں سات لوک سبھاممبران پارلیمنٹ اور 98ممبران اسمبلی کی طرف سے انتخابی حلف نامے میں خصوصیات کے بارے میں دی گئی معلومات انکم ٹیکس ریٹرن میں دی گئی معلومات سے مختلف ہے۔حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے بتایاکہ ان تمام کے خلاف تحقیقات چل رہی ہیں اورفاسٹ ٹریک کورٹ میں کیس کو ترجیح کی بنیاد پر بھیجا جاتا ہے۔معلومات دیکھنے کے بعد سپریم کورٹ نے ناموں کو عوامی نہیں کیا، بلکہ کورٹ اسٹاف کو کہا کہ بیک اپ یہ سیل بند کر دیں۔