لنگایت کو علاحدہ مذہب کا درجہ دینے ریاستی کابینہ کا بڑا فیصلہ؛مرکزی حکومت کو سفارش روانہ ، اقلیتوں پر اثر پڑنے کا خدشہ؛ مسلم لیڈران نے اُٹھائی آواز
بنگلورو۔19؍مارچ(ایس او نیوز) ریاستی کابینہ اجلاس میں آج جیسے ہی لنگایت ویر شیوا کا معاملہ زیر بحث آیا تو اجلاس میں حاضر دونوں گروپوں کے وزراء کے درمیان گرما گرم بحث شروع ہوگئی، جس پر وزیراعلیٰ سدرامیا نے مداخلت کرتے ہوئے دونوں گروپوں کو خاموش کرایا۔
کابینہ اجلاس میں کافی غوروخوض کے بعد ریاست کے طاقتور ویر شیوا لنگایت طبقے کو اقلیت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو سفارش روانہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ریاستی وزیر برائے آبی وسائل ایم بی پاٹل نے کابینہ اجلاس کے فوراً بعد ریاستی حکومت کے اس فیصلے کا اعلان کیا اور کہاکہ صدیوں سے اقلیتی طبقے کا درجہ حاصل کرنے اور اپنے آپ کو ہندو مذہب سے علیحدہ کرنے کیلئے ان دونوں طبقات کی مانگ کو منظوری دے کر ریاست کے ہندو طبقے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ اس سلسلے میں ریاستی حکومت کی طرف سے تشکیل شدہ جسٹس ناگ موہن داس کمیشن اور ریاستی اقلیتی کمیشن کے طرف سے دی گئی سفارشات کو کابینہ نے آج طویل بحث کے بعد منظوری کا اعلان کردیا اور کہا کہ اس طبقے کو اقلیت میں شامل کرنے کیلئے حکومت کی طرف سے جب نوٹی فکیشن جاری کیا جائے گا اس کے ساتھ ہی یہ طبقہ اقلیت کا حصہ بن جائے گا۔ ریاستی کابینہ کے فیصلے کے مطابق ریاست میں بسونا کی تعلیمات پر عمل کرنے والے لنگایت اور ویر شیوا طبقات اب اقلیت کہلائیں گے،اور انہیں اکثریت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ایم بی پاٹل نے اس ضمن میں آج ریاستی کابینہ کے فیصلے کو تاریخ ساز قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس کیلئے وہ وزیراعلیٰ سدرامیا اور اپنے کابینی رفقاء کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ کابینہ کے فیصلے کے مطابق بہت جلد ہی اس سلسلے میں دستاویزات مرکزی حکومت کو پیش کئے جائیں گے، اور اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر مرکزی حکومت کی طرف سے منظوری ملنے کاامکان ہے۔ا س موقع پر موجود وزیر باغبانی ایس ایس ملیکارجن نے بھی ریاستی کابینہ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ ویرا شیوا اور لنگایت دونوں فرقوں کی طرف سے وزیر اعلیٰ سدرامیا سے نمائندگی کی گئی تھی کہ ان دونوں کو اقلیت کے طور پر تسلیم کیاجائے ، جسے سدرامیا نے منظور کرلیا ہے۔ اس کیلئے انہوں نے وزیراعلیٰ کا شکریہ ادا کیا۔
لنگایت طبقے کو اقلیتی درجہ دئے جانے پر اقلیتوں پر اثر پڑنے کا خدشہ
ریاستی کابینہ کی طرف سے لنگایت طبقے کو ویرا شیوا کے ساتھ ملاکر الگ مذہب کا درجہ دینے اور اسے اقلیت تسلیم کرنے پر کئی اقلیتی لیڈروں نے مختلف خدشات ظاہرکئے ہیں کہ لنگایت طبقہ کو اقلیتی طبقہ کا درجہ دئے جانے سے وہ اقلیتی طبقات میں اکثریت میں آجائیں گے، جبکہ مسلمان اب تک اقلیت میں اکثریت میں تھے، وہ اقلیت میں اقلیت بن جائیں گے۔ اقلیتی طبقات کے لئے جو فلاحی اسکیمیں اور فنڈ جاری ہوتا ہے، اس کا بڑا حصہ لنگایت طبقہ کے لوگوں کو چلا جائے گا۔ مختلف اقلیتی اداروں پر لنگایت طبقہ کا قبضہ ہوجائے گا۔
اس تعلق سے بیشتر کابینی وزراء نے اس معاملے میں اپنے اپنے طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے جہاں اپنی بات رکھی، وہیں ریاستی کابینہ میں مسلم وزراء کی طرف سے قیادت کرتے ہوئے وزیر شہری ترقیات وحج جناب روشن بیگ نے وزیراعلیٰ سدرامیا کو متنبہ کیا کہ لنگایت طبقے کو اقلیت میں شامل کئے جانے سے ریاست میں سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے مفادات کو متاثر کیا گیاتو اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ آج وزیر اعلیٰ سدرامیا کی صدارت میں منعقدہ کابینہ میٹنگ کے دوران لنگایت طبقے کو الگ مذہب کا درجہ دئے جانے کے متعلق جسٹس ناگ موہن داس کمیٹی کی سفارشات کو منظور کرنے سے قبل اس پر ہوئی بحث میں حصہ لیتے ہوئے جناب روشن بیگ اور وزیر برائے بنیادی وثانوی تعلیمات تنویر سیٹھ نے اپنے طور پر وزیراعلیٰ سدرامیا سے کہاکہ لنگایت طبقے کو اگر اقلیت کا درجہ دیا جارہاہے تو ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ فی الوقت اقلیت کے طور پر مسلم طبقے کو حکومت سے جو مراعات حاصل ہیں ان میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔ جناب روشن بیگ نے وزیر اعلیٰ سدرامیا کو واضح الفاظ میں بتایاکہ اب تک اقلیتوں میں مسلمانوں کو سب سے بڑا تسلیم کرتے ہوئے جو جو سہولتیں حاصل رہی ہیں ان کو اور بھی بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا جاتا رہا ہے، اور حکومت کو بھی اسی سمت میں فکر مندرہنا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس بات کو لے کر فکرمند ہے کہ لنگایت طبقے کو اقلیت کا درجہ دئے جانے سے بحیثیت اقلیت مسلمانوں کی مراعات اور سہولتیں متاثر ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعلیٰ یقینی بنائیں کہ کابینہ نے آج جو فیصلہ لیا ہے اس کی وجہ سے مسلمانوں کے مفادات متاثر نہ ہونے پائیں۔
جناب روشن بیگ کے ان احساسات سے اتفاق کرتے ہوئے تنویر سیٹھ نے ریاستی حکومت کی طرف سے اقلیتوں کی فلاح وبہبود کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کا تذکرہ کیا اور کہاکہ لنگایت طبقے کو اگر اقلیتوں میں شمار کیا جانے لگاتو آنے والے دنوں میں دیگر اقلیتوں کی حصہ داری متاثر ہوسکتی ہے، وزیر اعلیٰ سدرامیا سب سے پہلے یہ بات یقینی بنائیں کہ ایسی کوئی ناانصافی مسلمانوں کے ساتھ نہ ہونے پائے۔ لنگایت طبقے کو اقلیت کا درجہ دئے جانے پر ریاست کے مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں ، لیکن اس سے ان کی مراعات ہرگز متاثر نہ ہوں ان کی فکر اسی بات کو لے کر ہے۔ اس مرحلے میں حالانکہ وزیراعلیٰ سدرامیا کی طرف سے کوئی واضح یقین دہانی نہیں کرائی گئی لیکن دونوں وزراء کی پرزور نمائندگی نے سرکاری حلقوں میں یہ تاثر ضرور عام کردیا ہے کہ مسلم قیادت نے یہ آواز اٹھائی ہے کہ لنگایت طبقے کو اقلیت میں شمار کئے جانے کے فیصلے سے مسلم طبقے کو جو خدشات ہیں وہ ارباب اقتدار تک پہنچ چکے ہیں۔ اور ان خدشات کا ازالہ کرنے کیلئے سرکاری سطح پر آنے والے دنوں میں ضرور قدم اٹھائے جاسکتے ہیں۔