بھٹکل کے مسلمانوں کے بارے میں ایک غیر مسلم کے تاثرات؛ متعصب ذہنیت سے آگے بسنے والے اچھے لوگ
بھٹکل 28 جون (ایس او نیوز) وجے وانی (کنڑا روزنامہ ) کے فیس بُک پیچ پر ہریش بنداگدّے نامی ایک شخص نے بھٹکل اور بھٹکل کے نوجوانوں کے تعلق سے اپنے تاثرات کا کس طرح اظہار کیا ہے، اُن ہی کی زبانی یہاں اُس کا اُردو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔ کنڑی زبان میں لکھے گئے ان کے تاثرات کو دوسرے ایک کنڑا نیوز پورٹل نے بھی ہو بہو شائع کرکے ان کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی ہے۔
میں گزشتہ ہفتے اپنے اہل خانہ کے ساتھ مرڈیشورجاتے ہوئے بھٹکل سے گزر رہا تھا۔اچانک میری کار حادثے کا شکار ہوگئی۔میری کار دو تین دیگر گاڑیوں سے ٹکراگئی اور تین افراد زخمی ہوگئے۔میری کار کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا۔خوش قسمتی سے کار میں موجود ہم تینوں میں سے کسی کو بھی ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا۔
چند ہی لمحوں میں سینکڑوں لوگ موقع پر جمع ہوگئے جن میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ خوف اور صدمے سے دوچار میں اورمیرے خاندان کے افراد کار سے نیچے اتر کر ادھر ادھر دیکھنے سے پہلے ہی صرف چار پانچ منٹ کے وقفے میں زخمیوں کو اسپتال کے لئے روانہ کردیا جاچکا تھا!
زخمیوں میں کوئی بھی مسلمان نہیں تھا ، لیکن ان زخمیوں کو اسپتال پہنچانے والے صرف مسلمان تھے!
بھٹکل کے مسلمانوں کے بارے میں میڈیا میں صرف دہشت گردی کی خبریں دیکھنے اور سننے والے میرے جیسے شخص کے لئے جائے حادثے پر جمع مسلمانوں کے ہجوم کو دیکھ کر خوف زدہ ہونا فطری بات تھی۔لیکن کوئی ایک شخص نے بھی مجھ سے سوالات کرنے کے لئے قریب نہیں آیا۔ مجھ پر کسی نے حملہ نہیں کیا۔الٹے حادثے میں میری کار کو جو نقصان پہنچا تھا اس پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرنے والے ہی زیادہ تھے۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ معمول کی کارروائی تھی۔ پولیس آئی۔ محضر بنایا گیا۔ میری کار پولیس اسٹیشن لے جائی گئی۔میرے خلاف کیس درج کیا گیا۔میں نے ایک دوسری گاڑی میں اپنی فیمیلی کے ساتھ آگے کا سفر جاری رکھا۔اس ٹیکسی والے سے بات چیت کرتے ہوئے یہاں کے مسلمانوں کے بارے میں پوچھنے پر اس نے جو جواب دیا وہ میرے لئے صحیح معنوں میں تعجب و حیرت کا سبب بنا۔وہ مسلمان نہیں تھا۔اس نے کہا یہاں کے مسلمان واقعی دوستانہ مزاج والے لوگ ہیں سر! مصیبت میں چاہے کوئی بھی ہو، اس کی مدد کو دوڑ پڑتے ہیں۔اور اس میں بھی اگر حادثے کا معاملہ ہوتو، صورتحال کتنی ہی بھیانک کیوں نہ ہو، پولیس کاانتظار کیے بغیر زخمیوں کو پہلے اسپتال پہنچانے کاکام کرتے ہیں۔دہائیوں قبل پائی جانے والی شدت اب ان میں نہیں ہے۔ اب یہاں پر فرقہ وارانہ امن و شانتی کی فضا بھی بنی ہوئی ہے۔ لیکن باہر کے لوگ بلاوجہ ان پر (مسلمانوں پر) اجتماعی طور پر الزامات لگاتے ہیں۔
میرے معاملے پر ہی غور کرنے پر مجھے اس ڈرائیور کی باتیں حقیقت اورسچائی کا عکس ہونے کا یقین آیا۔ بھٹکل میں یہ جو حادثہ ہوا ، اگر یہی حادثہ میسور یا منڈیا میں ہواہوتاتو اس وقت میری کیا حالت کردی گئی ہوتی، یہ سوچ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے!
کہیں دورکسی مقام پر بیٹھ کر بھٹکل کے تمام مسلمانوں کو دہشت گرد وں کے طور پر پیش کرنے والے میڈیا متعصبانہ ذہنیت سے باہر نکل کر حقیقت کے اندر جھانک کر دیکھتا تو کتنااچھا ہوتا نا؟
ایک اور بات، حادثے کی وجہ سے مجھ پر آنے والی مصیبت کی اس گھڑی میں وہاں کے وجئے وانی کے رپورٹر رامچندرا کینی نے میرے ساتھ کھڑے ہوکر میرا بڑاساتھ دیا۔ پولیس نے بہت ہی خوشگوار ماحول میں معاملہ داخل کرنے کے بعد میری گاڑی ریلیز کرنے میں تعاون کیا۔ میں ان سب کا ممنون ہوں۔