دھنیا شری خودکشی معاملہ: کلیدی ملزم گرفتار۔ وہاٹس ایپ گروپس کے اراکین پر پولیس کی نظر
چکمگلورو11؍جنوری (ایس او نیوز)مسلم لڑکے کے ساتھ دوستی کے معاملے کو لے کر زعفرانی مورل پولیسنگ بریگیڈ کی ہراسانی کی وجہ سے موڈی گیرے کامرس کالج طالبہ دھنیا شری نے جو خود کشی کرلی تھی، اس تعلق سے کلیدی ملزم جنوبی کینرا بنٹوال تعلقہ کے سنتوش(20سال) کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔
خیال رہے کہ سنتوش نے دھنیا شری سے وہاٹس ایپ پر مسلم لڑکے کے ساتھ اس کی دوستی کے تعلق سے بحث کی تھی اور یہ تمام گفتگو بجرنگ دل کے کارکنان اور کچھ دیگر افراد کو فارورڈ کردی تھی۔ جس کے بعدبجرنگ دل کے لیڈروں کی طرف سے دھنیا شری کو دھمکیاں دی جانے لگیں۔ سنتوش اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دھنیا شری کے والدین کو بھی دھمکیاں دی تھیں۔جس کے بعدذہنی دباؤ کی وجہ سے دھنیا نے پھانسی لگاکر خودکشی کی تو سنتوش فرار ہوکر بنگلورو میں روپوش ہوگیا تھا۔بالآخر مصدقہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے موڈی گیرے پولیس اسٹیشن ہاوس افیسر ایم رفیق اور ان کی ٹیم نے سنتوش کو گرفتار کرلیااور مزید دو افراد کی تلاش جاری ہے۔اس سے پہلے اسی معاملے میں بی جے پی یوا مورچہ کے ایک لیڈر انیل کو پولیس نے گرفتارکرلیا تھا۔
دھنیا شری کے والد نے ابتدا میں پولیس کو بیان دیا تھا کہ دھنیا شری موبائل فون پر اجنبیوں سے چیاٹنگ میں مصروف رہتی تھی۔ چونکہ امتحانات قریب تھے اس لئے انہوں نے اس کے موبائل استعمال کرنے پر پابندی لگادی تھی۔ اس سے ناراض ہوکر اس نے خود کشی کی ہے۔ لیکن پولیس نے تفتیش کے دوران دھنیا شری کے گھر سے ’ڈیتھ نوٹ‘ برآمد کرلیا جس سے خود کشی کا اصل سبب سامنے آگیا۔
دوسری طرف پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے اشتعال انگیز مسیج وہاٹس ایپ پر شیئر نہ کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے۔یاد رہے کہ ہندولڑکیوں کو غیر ہندو لڑکوں کے ساتھ دوستی نہ کرنے کی وارننگ دینے والا مسیج ’موڈی گیرے بجرنگ دل گروپ‘ میں پوسٹ ہواتھا اور وہاں سے دیگر گروپس میں شیئر اور فارورڈ ہوتا گیا ۔اب پولیس موڈی گیرے وہاٹس ایپ گروپس کے ان اراکین پر تفتیشی نظر بنائے ہوئے ہیں جنہوں نے اس مسیج کو پھیلانے میں حصہ لیا ہے۔
چکمگلورو کے ایس پی انّا ملائی نے کہا ہے کہ’’ اس قسم کا مسیج سوشیل میڈیا پر عام کرنا ایک جرم ہے۔6جنوری کو جس دن یہ مسیج عام ہواتھا اسی دن دھنیا شری نے خود کشی کرلی تھی۔اس لئے ہم نے ایسے افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جنہوں نے اس مسیج کو شیئر یا فارورڈ کیا تھا۔‘‘