وزارت داخلہ سنبھالنے کیلئے سدرامیا کے وزراء میں پس وپیش ،وزیر اعلیٰ یہ قلمدان اپنے کسی معتمدکو سونپنے کے حق میں
بنگلورو،5؍جون(ایس او نیوز) کرناٹک پردیش کانگریس کمیٹی صدر کے طور پر ایک اور میعاد کیلئے ڈاکٹر جی پرمیشور کے تقرر اور ریاستی وزارت سے ان کے استعفیٰ کے بعد مخلوعہ داخلہ کے قلمدان کو سنبھالنے میں ریاست کے سینئر وزراء تذبذب کا شکار ہیں۔ اس ذمہ داری کو سنبھالنے میں بعض سینئر وزراء کی طرف سے جس طرح کی پس وپیش کا اظہار کیا جارہاہے اسے دیکھتے ہوئے وزیراعلیٰ سدرامیا بھی پریشا ن ہیں۔ چونکہ آج ہی سے ریاستی لیجسلیٹر کا اجلاس شروع ہوا ہے۔ ریاست میں نظم وضبط سے جڑے مسائل پر وزیر داخلہ کو ایوان میں جواب دینا ہے۔ چونکہ اب یہ قلمدان سدرامیا کے پاس ہی ہے، انہیں ہی صورتحال کا مجموعی طور پر سامنا کرنا پڑے گا۔بتایاجاتاہے کہ وزیر اعلیٰ سدرامیا ایک بار پھر داخلہ کا قلمدان کے جے جارج کے حوالے کرنے کیلئے کوشاں ہیں، لیکن ترقیات بنگلور کے قلمدان کی ذمہ داریوں میں مصروف جارج نے داخلہ کا قلمدان سنبھالنے سے معذرت کرلی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پچھلی بار جب وہ وزیر داخلہ رہے تو بی جے پی نے انہیں کئی امور پر نشانہ بنایا ، اسی لئے وہ موجودہ قلمدان پر ہی مطمئن ہیں۔حالانکہ وزیر توانائی ڈی کے شیوکمار وزارت داخلہ سنبھالنے کیلئے تیار ہیں، لیکن وزیر اعلیٰ سدرامیا انہیں یہ قلمدان دینے کے حق میں نہیں،کیونکہ انتخابات کے مرحلے میں اگر یہ ذمہ داری ڈی کے شیوکمار کو دی گئی تو اس سے سدرامیا کے گروپ پر اثر پڑنے کا خدشہ ظاہر کیاجارہاہے۔ اس کے علاوہ وزیراعلیٰ سدرامیا کے دست راست کہلانے والے وزیر برائے تعمیرات عامہ ایچ سی مہادیوپا کا نام بھی سیاسی حلقوں میں لیاجارہاہے،لیکن انتہائی اہم قلمدان سنبھالنے میں مصروف مہادیوپا اس قلمدان کو سنبھالنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھارہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ سدرامیا جسے چاہیں داخلہ کا قلمدان سونپ دیں انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔حالانکہ ریاستی وزیر برائے سائنس وٹیکنالوجی ایم آر سیتارام بھی اس قلمدان کو حاصل کرنے کے اہم دعویداروں میں نظر آرہے ہیں ، لیکن کانگریس کا ایک بڑا طبقہ چاہتا ہے کہ داخلہ کا قلمدان بنگلور سے منتخب کسی رکن اسمبلی کے پاس رہے، تاکہ راجدھانی میں پولیس افسران پر حکومت کی گرفت مضبوط رہ سکے۔ سیتارام کو اگر داخلہ کا قلمدان دیاجاتاہے تو بحیثیت وزیر ان کی ناتجربہ کاری پارٹی کیلئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ بھی بتایاجارہاہے کہ وزیر اعلیٰ سدرامیا بحیثیت وزیر داخلہ سابقہ حکومت میں تجربہ رکھنے والے وزیر شہری ترقیات وحج جناب روشن بیگ کے نام پر بھی سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔ رواں لیجسلیچر اجلاس کے دوران ہی یا پھر اجلاس کے فوراً بعد اگر یہ قلمدان روشن بیگ کے حوالے کردیا جائے تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔حالانکہ بعض اراکین اسمبلی نے سدرامیا کو مشورہ دیا ہے کہ داخلہ کا قلمدان وہ اپنے پاس ہی رکھیں فی الوقت سدرامیا کے پاس خزانہ، کوآپریشن ، اطلاعات ورابطۂ عامہ، ڈی پی اے آر اور دیگر چند اہم قلمدان موجود ہیں۔سدرامیا نہیں چاہتے کہ ان تمام قلمدانوں کے ساتھ وہ داخلہ کے قلمدان کو بھی سنبھالیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے کسی معتمد وزیر کو یہ قلمدان سونپیں ۔ آنے والے اسمبلی انتخابات کے تناظر میں اقلیتی طبقے سے وابستہ جناب روشن بیگ کو اگر یہ قلمدان سونپا جاتاہے تو اس سے ریاست بھر کی اقلیتوں میں پارٹی کے تئیں اعتماد بحال کرنے میں کافی مدد بھی مل سکتی ہے۔اس دور اندیشی کے ساتھ سدرامیانے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ انہیں داخلہ کا قلمدان سونپا جائے۔