نئی دہلی 17؍جون (ایس او نیوز) دہلی میں حکومت چلانے کے لئے آئی اے ایس افسران کی طرف سے عدم تعاون کو مسئلہ بناکر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے لیفٹننٹ گورنرانیل بیجال کے دفتر میں جو دھرنا دے رکھا ہے اس کی حمایت میں چار غیر بی جے پی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے حمایت کا مظاہرہ کیا ہے۔
مغربی بنگال کی ممتا بنرجی، آندھرا کے چندرابابو نائیڈو، کرناٹکا کے ایچ ڈی کماراسوامی اور کیرالہ پینارائی وجیان نے دہلی میں اروند کیجریوال کے گھر پہنچ کر ان کے ساتھ یگانگت اورحمایت کا اعلان کرتے ہوئے مودی سرکار کے خلاف بن رہے تیسرے محاذ کے مستحکم ہونے کا اشارہ دیا ہے۔
خیال رہے کہ دہلی میں آئی اے ایس افسران کی طرف سے جاری ہڑتال کو ختم کرنے کے لئے لیفٹننٹ گورنر کی طرف سے مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے گزشتہ ایک ہفتے سے ایل جی کے دفتر میں عام آدمی پارٹی کے دیگر لیڈران کے ساتھ دھرنا دے رکھا ہے۔
اپوزیشن پارٹیوں کے ان چار وزرائے اعلیٰ نے لیفٹننٹ گورنر بیجال کو خط لکھ کر اروند کیجریوال سے ملاقات کرنے کی اجازت طلب کی ہے۔اس میں سے ممتا بنرجی کو ملاقات کا موقع دینے سے انکار کیا گیا تو موصوفہ نے اروند کیجریوال کی اہلیہ سے ملاقات کی۔ ان چار ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کی طرف سے اٹھایا گیا قدم اپوزیشن کے اتحاد میں نئی روح پھونکنے کا سبب بن سکتا ہے۔دوسری طرف اروند کیجریوال نے ٹویٹ کیا ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کو ان سے ملاقات کی اجازت دینے کا فیصلہ صرف لیفٹننٹ گورنر کا ہو نہیں سکتا، اس کے پیچھے وزیراعظم نریندرا مودی کے دفتر سے جاری ہونے والے احکام ہوسکتے ہیں۔
اس موقع پر ممتا بنرجی نے کہا کہ’’ دہلی میں دستوری بحران کی کیفیت پید اہوگئی ہے۔‘‘کیرالہ کے وزیراعلیٰ پینارائی کا کہناتھاکہ’’صرف دہلی میں نہیں بلکہ پورے ملک میں اسی طرح کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔‘‘جبکہ آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ چندرابابو نائیڈو کا کہنا تھاکہ’’ جمہوری طور پر منتخب حکومت کی حمایت کرنے کے لئے ہم لوگ یہاں پہنچے ہیں۔ایک حکومت کو صحیح طور پر کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ کیجریوال سے ملاقات کا موقع نہیں دیا جارہا ہے۔ اس بحران کو ہمیں جلد از جلد ختم کرنا ہوگا۔‘‘اسی کے ساتھ اروند کیجریوال نے کہا کہ ’’ ہم جمہوریت میں جی رہے ہیں۔ ایک ریاست کے وزیراعلیٰ سے دیگر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو ملاقات کرنے نہیں دیا جارہا ہے۔ کیا اس طرح کا اقدام وزیر اعظم کرسکتے ہیں؟سرکاری قیام گاہیں کسی کی میراث نہیں ہوتی ہیں۔ یہ تو عوام کی ملکیت ہوتی ہیں۔‘‘