کانگریس خیموں میں جشن تو بی جے پی میں مایوسی ؛ یڈیورپا کے حوصلے کمزور کرنے پارٹی لیڈروں کی سازش؟
بنگلورو۔13؍اپریل(ایس او نیوز) اگلے انتخابات کیلئے ریفرنڈم تصور کئے جانے والے ضمنی انتخابات میں کانگریس امیدواروں کی کامیابی سے سدرامیا کی سیاسی طاقت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ یہ انتخابات سدرامیا اور بی جے پی کے ریاستی صدر یڈیورپا کے درمیان وقار کا مسئلہ بنے ہوئے تھے۔ یہاں پر امیدواروں سے زیادہ پارٹیوں کے درمیان مقابلہ رہا۔ ان نتائج سے کانگریس پارٹی نے اگلے انتخابات کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے، جبکہ ان دونوں حلقوں میں کانگریس ہی کے اراکین موجود تھے۔
انتخابی مہم کیلئے کئی سینئر لیڈروں نے دن رات ایک کئے ، جبکہ وزیر اعلیٰ سدرامیا اور بی جے پی صدر یڈیورپا کئی دنوں کیلئے ان حلقوں میں کیمپ کئے ہوئے تھے۔ یڈیورپانے دونوں حلقوں میں امیدواروں کوکامیاب بنانے کافی جدوجہد کی، مگر انہیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ تو وہیں شکست سے بوکھلاہٹ میں مبتلا بی جے پی کا الزام ہے کہ کانگریس امیدواروں نے پیسے کے بل پر کامیابی حاصل کی ہے، جبکہ جمہوری نظام میں ووٹوں کی تعداد اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ سدرامیا کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اسمبلی کی رکنیت اور کانگریس سے مستعفی ہونے والے سابق وزیر وی سرینواس پرساد نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور اعلان کیاتھاکہ جب تک ایوان میں سدرامیا ہیں تب تک وہ ایوان میں داخل نہیں ہوں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود ووٹروں نے ان کی لاج رکھ لی، تاکہ وہ اپنے بیان پر قائم رہ سکیں۔ جبکہ سدرامیا نے اہندا طبقات کو اعتماد میں لیتے ہوئے کانگریس امیدواروں کو کامیابی سے ہمکنار کرایا۔دونوں حلقوں میں جنتادل (ایس) نے امیدوار نہیں اتارے تھے، جس کا بھرپور فائدہ کانگریس کو حاصل ہوا، جبکہ ناگہانی موت کے سبب گنڈل پیٹ میں ہوئے انتخابات میں ہمدردی کی لہر نے گیتا مہادیو پرساد کو کامیاب بنانے میں تعاون کیا۔ نتائج کے بعد بی جے پی صدر بی ایس یڈیورپا نے شکست کا اعتراف کرتے ہوئے بتایاکہ انہیں توقع نہیں تھی کہ پارٹی امیدوار ناکام ہوں گے۔ وہ ووٹروں کے فیصلے کا احترام کریں گے اور شکست کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ان کے مطابق ہمیشہ سے روایت رہی ہے کہ ضمنی انتخابات میں حکمران پارٹی کو ہی کامیابی ملتی ہے۔ ان نتائج سے بی جے پی اور آنے والے انتخابات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اگلے انتخابات میں بی جے پی 150 نشستوں پر ضرور کامیاب ہوگی۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ کانگریس نے پیسوں کے بل پر کامیابی حاصل کی ہے، اور سینئر لیڈر سرینواس پرساد کی ناکامی سے انہیں کافی مایوسی ہوئی ہے اور بتایاکہ ان نتائج کو پارٹی نے چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہوئے آنے والے انتخابات پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ لیاہے۔ کونسل کے اپوزیشن لیڈر ایشورپانے الزام عائد کیا کہ پیسوں کے بل اور سرکاری مشنری کے غلط استعمال سے کانگریس نے کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ انہیں پارٹی امیدواروں کی شکست کا اندازہ نہیں تھا، تاہم ووٹروں کے فیصلے کا وہ احترام کریں گے۔ چامراج نگر ضلع کے انچارج وزیر یو ٹی قادر نے گنڈل پیٹ میں پارٹی امیدوار کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایاکہ اس حلقہ میں آنجہانی مہادیو پرساد کے ذریعہ کئے گئے ترقیاتی کام اور ان کی مقبولیت کے سبب پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ پارٹی لیڈروں کی مجموعی کوششوں کے نتیجہ میں دونوں حلقوں میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ آنے والے دنوں میں اس حلقہ میں مزید ترقیاتی کام کئے جائیں گے، جبکہ فاتح امیدوار گیتا مہادیو پرساد نے رکن پارلیمان پرتاب سنہا کے ذریعہ انتخابی مہم کے دوران دئے گئے بیانات پر تنقید کرتے ہوئے بتایاکہ خاتون کی توہین کرنے پر ووٹروں نے انہیں سبق سکھایا ہے، انہوں نے ان کی کامیابی کیلئے جدوجہد کرنے والے تمام لیڈر اور کارکنوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایاکہ وہ حلقہ میں ترقیاتی کاموں پر توجہ دیں گی اور اپنے آنجہانی شوہر مہادیو پرساد کے ذریعہ جاری منصوبوں کی تکمیل کیلئے اقدامات کریں گی۔ اس دوران سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی میں موجود یڈیورپا مخالف گروپ کی سازشوں کے نتیجہ میں پارٹی امیدواروں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے یا پھر تمام سیاسی جماعتوں نے یڈیورپا کو سیاسی طور پر ختم کرنے کیلئے اتحاد کا جو مظاہرہ کیا وہ اس کیلئے ذمہ دار ہے۔بی جے پی کے اگلے وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش کئے گئے یڈیورپاکی گرفت کمزور کرنے کیلئے خود بی جے پی قائدین بھی اس معاملے میں پیش پیش رہے ہیں۔ ان انتخابات کیلئے یڈیورپا نے اپنا سارا وقت ان حلقوں میں لگادیا۔ یہاں تک کہ لوک سبھا اجلاس میں بھی وہ حاضر نہیں ہوپائے۔ اس کے باوجود ان حلقوں میں ناکامی سے انہیں زبردست رسوائی ہوئی ہے تو دوسری طرف ان کے سیاسی مخالفین نے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی رفتار کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ بتایاجاتاہے کہ انتخابی مہم میں یڈیورپا مخالف گروپ کے لیڈروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا ، کیونکہ اگر ناکامی ہوئی تو اس کی تمام تر ذمہ داری یڈیورپا پر عائد کی جائے۔ جب سے یڈیورپاپارٹی صدر بنے ہیں تب ہی سے ان کے خلاف چند لیڈران محاذ آرا ہوچکے ہیں۔پارٹی عہدیداروں کی نامزدگی کے معاملے سے نااتفاقی کا آغاز ہوگیا تھا، اور برہم قائدین انہیں سبق سکھانے کیلئے موقع کا انتظار کررہے تھے۔اسی مقصد سے ان انتخابات کے موقع پر یڈیورپا مخالفین نے انتخابی مہم سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ اگر دونوں حلقوں میں بی جے پی کامیاب ہوجاتی تو یڈیورپا کی حاکمیت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔