فوج کو گھٹیا کھانا، مجرم کون ہے؟ ....... تحریر: منصور عالم قاسمی(ریاض، سعودی عرب)

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 14th January 2017, 7:07 AM | اسپیشل رپورٹس |

  جموں کشمیرمیں تعین ۹۲ویں بٹالین کا جوان تیج بہادر یادو پچھلے دو دنوں سے سوشل میڈیا سے لے کر پرنٹ میڈیا تک موضوع بحث؛بی ایس ایف افسران اور سرکار کے لئے باعث ندامت و خجالت بنا ہوا ہے اور کیوں نہ ہوکہ اس نے ایک ایسی خامی کو بر سر عام کردیا ہے جس سے ملک میں شدید غم و غصہ کی لہر پائی جا رہی ہے اوربیرون ممالک ہندوستان اورطاقتور ترین ہندوستانی افواج کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔

 تیج بہادر یادو نے دو روز قبل فیس بک پر یکے بعد دیگرے چار ویڈیوز اپلوڈ کیں،ایک ویڈیو میں وہ اپنا مکمل تعارف اودرپیش مشکلات و حالات کو بتا رہا ہے جبکہ دوسری ویڈیوزمیں مہیا ہونے والے کھانے کو دکھا رہا ہے؛بیک گراؤنڈ میں واضح نظر آرہا ہے کہ وہ کسی برفانی علاقہ میں کھڑا ہے۔یہ ویڈیوز کیاتھیں،ایٹم بم تھے،جس کی چپیٹ میں دیکھتے ہی دیکھتے حکومت بھی آگئی،کم و بیش ایک کروڑ سے زائد لوگوں نے دیکھیں،کمنٹس کئے اور شیئر بھی ہوتی رہیں۔حالات کی نزاکت کو بھانتے ہوئے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا:ہم نے ویڈیوز دیکھیں،داخلہ سیکریٹری کو اس معاملہ میں بی ایس ایف سے رپورٹ طلب کرنے کو کہا ہے،اگرضرورت پڑی تو کارروائی کی جائے گی“ راجناتھ جی کے جاری کردہ احکامات یقینا قابل ستائش ہیں لیکن کیا اس سے تیج بہادر کو انصاف ملے گا؟جوانوں کے حالات سدھریں گے؟مجھے قطعاً ایسا نہیں لگ رہا ہے اور ابتدائی رپورٹ بھی آ گئی ہے، جس میں جوان ہی کو مجرم اور جھوٹا بتایا گیا ہے۔ ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان کی چانچ ایجینسیاں یا تو حقایق تک پہونچ نہیں پاتی ہیں یا کہہ نہیں پاتی ہیں بلکہ کہنے نہیں دیاجاتا ہے اور معاملہ جب حکومت کی بے عزتی کا ہو، سینئر افسران کی سرزنش کا ہو،صاحب اثر و رسوخ یا نیتاؤں کی گرفت کا ہو تو معاملہ سردبستہ میں ڈال  ہی دیا جاتا ہے۔۲۱۰۲ میں بھی جموں کشمیر کے ایک میجر پر راشن ٹھیکوں میں خرد برد کا ا لزام لگا تھا،اس پر مقدمہ بھی چلا مگر کیا ہوا کچھ نہیں؟راجیو کے دور میں بوفورس گھوٹالہ،واجپئی کے دور میں براک میزائل سے لے کر مشہور تابوت گھوٹالہ،پھر اگستا ہیلی کاپٹر گھوٹالہ،کن کو سزاملی؟ کسی کو نہیں۔  چونکہ تیج بہادر نے بھی اپنے سینئر افسران کو ہی کٹہرے میں کھڑا کیا ہے اس لئے ماضی کی تاریخ کو دیکھ کر ممکن نہیں لگتا ہے کہ غیر جانبدارانہ تحقیق ہوگی حالانکہ صداقت و شفافیت سے تحقیق کی نام پر مذکورہ جوان کی یونٹ بدل کر کنٹرول لائن سے پونچھ ہیڈ کواٹر منتقل کردیا گیا ہے لیکن وہاں اسے اس جرم کے عوض پلمبر کا کام دے دیا گیا ہے۔تیج بہادر کی بیوی شرمیلایادوکا کہنا ہے کہ:جب سے انہوں نے ویڈیوز اپلوڈ کی ہیں ہم سب فکر مند ہیں،ہم نے کچھ بولنے سے منع کیا تھا لیکن ان کی عادت ہے کہ وہ غلط کو سہن نہیں کر پاتے ہیں۔تیج بہادر کے والد نے بھی کہا ہے کہ: جب وہ ۱/ دسمبر کوگھر آیا تھا تو وہ کہہ رہا تھا کہ وہاں کھانا ٹھیک سے نہیں ملتا ہے اس لئے وہاں رہنا مشکل ہے،،۔ اور اب جموں رینج کے آئی جی بی ایس ایف  ڈی کے اپادھیائے نے کہا ہے کہ:تیج بہادر کے الزامات کی چانچ کی مگر کوئی ثبوت نہیں ملا! مطلب سینئر افسران پر کوئی آنچ نہیں آئے گی،برق گرے گی تو اس ناتواں بہادر پرہی۔تحقیق وتفتیش کرنے والے بی ایس ایف کے ڈی آئی ایم،ڈی ایس مان نے کہا ہے کہ:کھانے کی کوالیٹی کو لے کر کسی جوان نے کوئی شکایت نہیں کی،تیج بہادر کا  ہی ریکارڈ خراب ہے،یہ اپنے سینئروں کی بات نہیں مانتا ہے،یعنی تیج بہادر  جھوٹا ہے،نافرمان ہے۔مانا وہ سب کچھ ہے مگر اپادھیائے اور مان صاحبان سی آئی جی(cag (جیسی معتبر کمیٹی کی رپورٹ کو کیا کہیں گے؟ سی آئی جی کی رپورٹ ہے ”پاکستان اور چین کے بارڈر پر تعینات بھارتی جوانوں کو تازہ کھانا نہیں دیا جاتا ہے اور بھر پیٹ بھی نہیں دیا جاتا ہے،اس کا مزید کہنا ہے،فوجیوں کی درمیان سروے کرانے پر ۸۶ فیصد جوانوں نے کھانا کو گھٹیا یا بس قابل طعام کہا ہے،گوشت اور سبزیاں غیر معیاری ہوتی ہیں، برانڈیڈ آٹا تک نہیں دیا جاتا ہے“۔میجر جنرل ریٹائرڈ پی کے سہگل نے بھی مانا ہے کہ کھانے کی کوالیٹی کو لے کر سی آئی جی کی رپورٹ درست ہے، خامیوں کو دور کرنی چاہئیں۔کچھ سابق فوجیوں نے بھی تیج بہادر کو حق بجانب قرار دیا ہے۔حالانکہ ایک فوجی پر برائے طعام ۰۰۹۲ روپئے ماہانہ دیئے جاتے ہیں مطلب یومیہ ۵۹ روپئے،پھر اس قدر گھٹیا کھانے ان جوانوں کو کیوں کرپروسے جاتے ہیں جو سرحد اور دیش کی حفاطت میں مامور ہیں؟آخر ان جوانوں کی خوراک کون ہضم کر جاتا ہے؟اس کا جواب بھی انگریزی کا معتبر اخبار ”ٹائمس آف انڈیا“کے پاس ہے،وہ لکھتا ہے ”سرینگر کے ہُمہما بی ایس ایف ہیڈ کوارٹر کے گردو نواح میں رہنے والے لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ہوائی اڈے کے پاس کے دکاندار بی ایس ایف افسران سے فروخت کئے جانے والے ایندھن اور راشن کے خریدار ہیں،انہیں بازار سے نصف قیمت میں مل جاتے ہیں،نام نہ شائع کرنے کی شرط پر جوانوں نے بتایاکہ یہ کام ایجنٹ کی معرفت ہوتا ہے،ایک فرنیچر ڈیلر نے بھی  بتایا کہ فرنیچر خریدنے والے ذمہ داران ہم سے موٹا کمیشن لیتے ہیں اور انہیں کوالیٹی سے کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے۔“

 ماناکہ تیج بہادر جھوٹا ہے،مکار ہے،سینیئروں کی بات نہیں مانتا ہے،ضابطہ شکن ہے،۰۱۰۲ میں کورٹ مارشل ہو چکا ہے،پرموشن نہ ملنے کی وجہ سے نوکری چھوڑنے کی درخواست دے چکا ہے، مگر سی آئی جی،میجر پی کے سہگل اور ٹائمس آف انڈیا کو بی ایس ایف کے افسران کیا کہیں گے؟ان ویڈیوز کو اپلوڈ کرنا ممکن ہے ڈسپلن شکنی ہو لیکن ڈسپلن شکنی اس وقت کہا جا سکتا ہے جب وہ اپنے سینئر کمانڈروں سے پہلے اس کی شکایت نہ کرتا! جبکہ تیج بہادر کا کہنا ہے کہ ہم نے متعدد بار شکایت کی مگر ہماری بات ان سنی کردی گئی،  تب جا کر مجبوراًٰ ہم نے یہ قدم اٹھایا،اس لئے اس عمل کو ضابطہ شکنی نہیں کہا جا سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب تیج بہادر بارہاں قانون توڑتا رہا ہے تو اب تک وہ ملازمت کیسے کر رہا ہے وہ بھی سرحد جیسے حساس ایریا میں ڈیوٹی دی گئی ہے؟اسے ۴۱/ اعزازات کیسے دیئے گئے جس میں ایک گولڈ بھی ہے؟ تیج بہادر اگرچہ حکومت کو کلین چٹ دے کر اس سے مدد کی اپیل کر رہا ہے مگر حکومت کو معصوم بھی نہیں گرداناجا سکتا، کیونکہ آرمی ہیڈ کوارٹر نے جو راشن مانگا تھا وزارت دفاع نے ۰۲۔۳۲ فیصد کم کر کے دیا ہے،یہ بھی سی آئی جی ہی کی رپورٹ ہے۔پھر مجرم کون ہے؟تیج بہادر یادو،بی ایس ایف کے سینئر افسران یا وزارت دفاع؟

 مجرم جو بھی ہو یہ فیصلہ بعد میں ہوگا،تاہم فوجی عہدیداران،وزارت دفاع اور دیگر ذمہ داران کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہئے کہ یہی جوانان  دیش کے مخافظ ہیں،سرد و گرم،رطب و یابس کو سہہ کر سرحد کی،ملک کی،ہماری اور آپ کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں؛اگر انہیں غیر معیاری کھانا کھانے کو دیا جائے گا، ان کا خیال بہتر طریقے سے نہیں رکھا جائے گا تو اس سے ان کا حوصلہ اور اعتماد ٹوٹے گا،جس سے ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی خطرے میں بھی پڑ سکتی ہے۔              (ساحل آن لائن)
 

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...