یدی یورپا نے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی طرز پروزیراعلیٰ عہدہ سے دیا استعفیٰ
بنگلورو،19؍مئی (ایس او نیوز؍ آئی این ایس انڈیا ) سیاست میں تعداد کا اعدادوشمار سب سے اہم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کرناٹک میں بی ایس یدی یورپا کی کرسی چلی گئی اور وہ کرناٹک میں اپنی حکومت بچانے میں ناکام رہے اور انہیں اسمبلی میں آج فلور ٹسٹ سے قبل ہی استعفیٰ دینا پڑا۔ 1996 میں اٹل بہاری واجپئی حکومت اکثریت کے اعدادوشمار حاصل کرنے میں ناکام رہی تو فلور ٹسٹ سے قبل ہی واجپئی نے ایوان میں جذباتی تقریر کی تھی۔
اس تقریر کے بعد وہ صدر جمہوریہ کو اپنا استعفیٰ سونپنے چلے گئے تھے۔ اصولوں پر عمل کرنے والے اٹل بہاری واجپئی حکومت تو نہیں بچا سکے تھے، لیکن ان کی اس بات کے لئے تعریف ہوئی کہ انہوں نے حکومت بچانے کے لئے غلط طریقوں کا استعمال نہیں کیا۔
کرسی چھوڑ کر واجپئی نے اپوزیشن لیڈر کا رول ادا کیا۔ پھر الیکشن ہوا تو دوبارہ وزیراعظم بنے۔ پہلے ہی کہاجارہا تھا کہ کرناٹک میں یدی یورپا بھی ایک جذباتی تقریر کے ساتھ استعفیٰ دے سکتے ہیں اور انہون نے وہی کیا۔ فلورٹسٹ سے قبل یدی یورپا نے اسمبلی میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہاکہ کرناٹک کی عوام نے کانگریس کو مسترد کردیا ہے۔ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری ہے اور بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے مجھے وزیراعلیٰ بنایا۔ اپنی تقریر کے دوران انہوں نے استعفیٰ دے دیا اس سے بی جے پی اور یدی یورپا کی اخلاقیات کچھ حد تک باقی رہ گئی اور اب دوسری پارٹیاں بہت زیادہ حملہ نہیں کرسکیں گی۔
دہلی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سبودھ کمارنے یدی یورپا کے استعفیٰ دینے سے قبل ہی کہا تھا کہ یدی یورپا واجپئی کے انداز میں تقریر کرکے استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ اس سے وہ شہید بن کر ہمدردی لینے کی کوشش کریں گے، لیکن وہ واجپئی نہیں ہوسکتے۔ لوگوں کو تو یہ معلوم ہی ہوگیا ہے کہ یدی یورپا کی جانب سے کوشش ہوئی تھی، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔
واجپئی نے صدر جمہوریہ کو استعفیٰ سونپنے سے قبل لوک سبھا میں کہا تھا “ہمارا کیا جرم ہے، ہمیں کیو ں کٹہرے میں کھڑا کیاجارہا ہے؟ یہ مینڈیٹ ایسے ہی نہیں ملا ہے، اس کے پیچھے سالوں کا جدوجہد ہے۔ ایک ایک سیتوں والی پارٹیاں ککرمتّے کی طرح پیدا ہوجاتی ہیں۔ ریاستوں میں آپس میں لڑتی ہیں۔ دہلی میں آکر ایک ہوجاتی ہیں، ہم ملک کی خدمت کے کام میں مصروف رہیں، ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ جو کام ہم نے اپنے ہاتھوں میں لیا ہے، اسے پورا کئے بغیر آرام نہیں کریں گے۔ عالیجناب اسپیکر، میں اپنا استعفیٰ صدر جمہوریہ کو سونپنے جا رہا ہوں”۔
بطور وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی اس جذباتی تقریر کی دور اندیش اثرہوئی۔ وہ 1998 اور 1999 میں وزیراعظم بنے۔ آج بھی واجپئی کی اس سیاسی اخلاقیات کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر واجپئی کے انداز میں یدی یورپا استعفیٰ دیتے ہیں تو اس حادثہ کی وجہ سے گئے منفی پیغام کا ڈیمیج کنٹرول ہوسکتاہے۔