بھٹکل:8/مئی (ایس اؤنیوز)ساحلی علاقہ سمیت ملناڈ کا کچھ حصہ بظاہر اپنی قدرتی و فطری خوب صورتی اور حسین نظاروں کے لئے جانا جاتا ہو اور یہاں کے ساحلی نظاروں کی سیر و سیاحت کے لئے دنیا بھر سے لوگ آتے جاتے ہوں، لیکن یہاں رہنے والے عوام کے لئے یہ سب بے معنی ہیں۔ کیوں کہ ان کی داستان بڑی دکھ بھری ہے۔ کہنے کو سب کچھ ہے لیکن نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں ہوا کا چلنا ممنوع ہے بارش تو ہونی ہی نہیں چاہئے ، اگر ہواچلی، بارش ہوئی تو منٹ بھرمیں گاؤں کا گاؤں اندھیرےمیں ڈوب جانے کے ساتھ نقصانات بھی کافی ہوتے ہیں۔ ہوا کا چلنا گھروں کی چھتوں پر درختوں کا گرنا، جانی ومالی نقصانات ،ہزاروں بجلی کے کھمبے ، بجلی کے تاروں کا ٹوٹ کر گرنا ، بجلیوں کی گرج اور چمک سے عوام خوف کے مارے اِدھر اُدھر منتقل ہونا، بچے ڈر کے مارے دبک جانا، گویا خوف و ہراس کا ماحول۔ اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔
بجلی کو جنم دینے والے مرکز پر ہمارا قیام برائے نا م ہی ہے ، شراوتی ہو، کئیگا ہو، دوسرے گاؤں، اضلاع، صرف ریاست ہی نہیں ،ملک بھر کو یہاں سے بجلی سپلائی ہوتی ہے، ملک کو روشنی دینےوالے عوام میں آ ج بھی متاثرین کی خاصی تعداد ہے۔ ریاست کے دیگر اضلاع سے موازنہ کریں تو سب سے زیادہ بجلی بل ہم ہی ادا کرتے ہیں! ہائے افسوس، ہماری پھوٹی قسمت !ہمیں ہی بجلی کی مناسب سہولیات میسر نہیں ہیں، ہزاروں گھر ایسے ہیں جنہیں بجلی کیا ہے پتہ ہی نہیں۔ جدوجہد، احتجاج، دھرنے بنگلورو اور دہلی والوں کے کانوں تک پہنچتے ہی نہیں، بھٹکل میں 110 کے وی بجلی مرکز کامطالبہ ابھی تک مطالبہ ہی ہے۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کے پاس سہولیات ہیں ان کے لئے بھی ہر سال موسمِ باراں بھی جہنم زار بن جاتاہے۔ صرف ایک مرتبہ دس منٹ کے لئے چلنے والی ہوااور برسنے والی بارش کے سامنے ایک بھی بجلی کے کھمبے کو مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہنے کی سکت نہیں ہے۔ ساحلی اور ملناڈ علاقہ میں ہونےو الی ایک بارش کے نتیجے میں 10ہزار سے زائد بجلی کے کھمبے زمین بوس ہوجاتے ہیں۔ پھٹ کر گرنے والے بجلی کے تاروں کی لاگت کروڑوں روپیوں کو پار کرجاتی ہے، جانی ومالی نقصانات بھی کم نہیں ہے تو مرنے والے جانوروں کا شمار کرنا مشکل ہوجاتاہے۔
پرسو ں دس منٹ کے لئے طوفانی ہوا کیا چلی اور ایک گھنٹے سے کچھ کم وقت کے لئے بارش کیا برسی، بھٹکل اور ہوناور میں 200سے زائد بجلی کے کھمبے اکھڑ گئے۔ ان باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کا سسٹم کتنا ناکارہ ہے۔ اسی دس منٹ کی طوفانی ہوائوں کا رونا روتے ہوئے پورا ایک دن اور دو راتیں عوام کو تاریکی میں گذارنی پریں۔ ان کھمبوں اور بجلی کی تاروں کی مرمت کے لئے دس بارہ سواریوں کے ذریعے ہیسکام عملے کو دوڑ دھوپ کرتے دیکھا گیا۔
بارش، ہوا، بجلی اور گرج کو لے کرہرسال یہاں کا یہی رونا ہے۔ہرسال کروڑوں روپئے ان ہی مرمتوں میں خرچ کئے جاتے ہیں، الیکٹری سٹی فیل ہونے سے عوام کی پریشانی پھر الگ ہے۔ ملک کو آزاد ہوئے 7دہے گزرچکے ہیں ، تعجب اس بات پر ہے کہ آخر ہمارے عوامی نمائندے اور افسران اس مسئلہ پر غور کیوں نہیں کرتے ؟ متبادل انتظامات کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟
دراصل ساحلی علاقوں میں نصب کئے جانے والے سمنٹ سے بنے بجلی کے کھمبے اُن علاقوں کے لئے موزوں ہوتے ہیں جہاں کم بارش ہوتی ہے، جہاں طوفانی ہوائیں نہیں اُڑتی، دیکھا جائے تو ایسے کھمبے میدانی علاقوں بالخصوص بنگلور وغیرہ کے لئے موزوں ہوتے ہیں، لیکن یہاں برائے نام نصب کی گئی لوہے کی پٹی بھی ہل جاتی ہے توہر کسی کو یہاں کے حالات سے واقفیت ہوجاتی ہے۔ بنگلور اور دیگر میدانی علاقوں میں بیٹھ کر بلیوپرنٹ تیار کرنے والے عوامی نمائندے یہاں سمنٹ سےتیار کردہ بجلی کھمبوں کو زبردستی نصب کرتے ہیں، اے سی روم میں بیٹھنے والے افسران آنکھیں بند کرکے فائلوں پر دستخط کردیتے ہیں۔ کھمبے ، تار، ٹرانسفارمر وغیرہ کی درستگی و مرمت میں ان کا حصہ ہوتا ہوگا جس کی وجہ سے ہی ہرسال کا موسم باراں ان کے لئے عید کی سوغات ہے۔
انڈر گرائونڈ کیبل نظام : سال کے 4مہینے کھمبوں اور تاروں کو کھڑے رہنے کی سکت نہیں ہے تو ان بدترین حالات کے نیتجےمیں کم سے کم اب تو انتظامیہ کو سرکار کو نئے نظام کے متعلق سوچنا چاہئے۔ لٹکنے والی تاروں کو کیبل کے ذریعے انڈر گراونڈ بچھانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کھمبوں اور تاروں کی لاگت کا کیبل سے موازنہ کریں تو 7-8گنا خرچ زائد ہوگا، لیکن ہر سال درستگی و مرمت کے لئے ہونے والے اخراجات اور نقصانات کے عوض سوچیں تو یہی فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اتنا ہی نہیں ، جانی نقصان کا خوف بھی نہیں رہے گا، ابتداء میں ساحلی پٹری کے شہروں کو منتخب کرکے منصوبے کو نافذکرنے کے لئے محکمہ مضبوط قدم رکھے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ دس منٹ تک چلنے والی ہوائیں ہی نہیں طوفانی بارش سے بھی نقصانات پر قابو پایا جاسکے گا۔ عوامی نمائندوں کی ذمہ داری بنتی ہےکہ عوام کی طرف سے دئے جانے والے مشوروں، مطالبوں اور اُن کی درخواستوں پر توجہ دیں اور ودھان سبھا میں آواز اُٹھاتے ہوئے تبدیلی لائیں۔ ہوسکتا ہے کہ دکھ بھری قسمت کے سہارے جینے والے ساحلی عوام کے خاتمہ کے لئے موسم باراں ہی موزوں ثابت ہو۔
کیبل نظام کے متعلق ہیسکام بھٹکل کے معاون انجنئیر منجوناتھ سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ساحلی پٹی پر کیبل کے ذریعے بجلی کے تاروں کو جوڑنابہترین منصوبہ ہے ،لیکن اس کے لئےزیادہ سرمائے کی ضرورت ہوگی، البتہ نگرانی کا خرچ کافی کم ہوجائے گا۔ چونکہ یہ مالیات کا معاملہ ہے محکمہ کو اس کا فیصلہ لینا ہوگا۔
اس سلسلے میں ہبلی بجلی سپلائی کمپنی کے ساحلی ڈائرکٹر منجوناتھ نائک سے اس تعلق سے گفتگو کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ اسی ماہ 18تاریخ کو ہیسکام کی میٹنگ ہے ، ساحلی پٹری پر بجلی کے حادثات سے تحفظ فراہم کرنےکے لئے کیبل نظام کی ضرورت کو لےکروہ میٹنگ میں اس تجویز کو ضرور پیش کریں گے۔ انہوں نے قبول کیا کہ شروعاتی خرچ زیادہ ہوسکتاہے لیکن کیبل کی نصب کاری کا منصوبہ بہت ہی بہترین ہے اور اس کام کے لئے اُن کی مکمل حمایت حاصل ہے۔