بھٹکل12؍اگست (ایس او نیوز) زیرسماعت قیدیوں کے لئے مختصر عرصے تک قیام کی سہولت کے طور پر جو ذیلی قید خانہ ( سب جیل) تھا اس کی خستہ حالت کی وجہ سے دو سال قبل اسے بندکردیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ایک یا دو دن کی عدالتی حراست میں دئے جانے والے قیدیوں کو تین گھنٹے کا سفر کرکے کاروار لے جانا پڑتا ہے جس کی وجہ سے قیدیوں کے ساتھ بطور سیکیوریٹی جانے والے پولیس عملے کو بھی مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بھٹکل کے ریوینیو دفتر کے احاطے میں موجود اس سب جیل کے کمروں کی حالت بہت ہی خستہ ہوگئی ہے اور اس کی پچھلی دیوار گرجانے کے بعد اس ذیلی قید خانے کومرمت ہونے تک کے لئے بند کردیا گیاتھا۔ اس بات کو دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے ، مگر سب جیل کو درست کرنے کی طرف افسران توجہ نہیں دے رہے ہیں۔جس کے نتیجے میں سب جیل کے لئے مختص دو کمرے یونہی ویران پڑے ہوئے ہیں اور وہاں ٹریژری کی حفاظت پر ماموربینچ پر بیٹھے ہوئے ایک پولیس کانسٹیبل کے علاوہ کوئی انسان نظر نہیں آتا ۔
بھٹکل میں سب جیل کی سہولت مہیا نہ ہونے کی وجہ سے ہر زیر سماعت قیدی کوبس کے ذریعے تین گھنٹوں کا سفر کرکے کاروار لے جانا اور عدالت میں دوبار ہ پیش کرنے کے لئے بھٹکل لانا پڑتا ہے۔ قیدیوں کے لئے اضافی مصیبت تو یہ ہوجاتی ہے کہ اگر عدالت شام کے آخری وقت میں کسی قیدی کو رہا کرنے کا فیصلہ سناتی ہے تو اس کی تصدیق شدہ نقل حاصل کرکے کاروار جیل کے افسران تک پہنچانے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں اور اکثر اوقات جیل کا عملہ دفتری وقت ختم ہونے کی وجہ بتاکر قیدی کے رشتے داروں کو دوسرے دن آنے کی ہدایت کے ساتھ واپس بھیج دیتا ہے۔ اس طرح قیدی کو عدالت سے رہائی ملنے کے باوجود مزید ایک رات اور دوسرے دن کا کچھ حصہ اضافی سزا کے طور پر جیل میں گزارنا ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے پولیس کوبھی بڑی مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔
اس سلسلے میں ایڈوکیٹ ایم جے نائک نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ بھٹکل سب جیل کا مسئلہ شروع ہوکر دو سال کا عرصہ گزرچکا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں کسی کوبھی کوئی فکر نہیں ہے۔اس سے عام لوگوں کو بڑی تکلیف ہورہی ہے۔ اس تعلق سے عوامی منتخب نمائندوں کو توجہ دیتے ہوئے مناسب اقدام کرنا چاہیے۔جبکہ ریوینیو ڈپارٹمنٹ کے سررشتہ دار سنتوش بھنڈاری نے بتایا کہ سب جیل کی پچھلی دیوار گرجانے کی وجہ سے اسے بندکردیاگیا ہے۔ اس کی مرمت کے لئے پی ڈبلیو ڈی سے مطالبہ کیا گیا ہے۔لیکن فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک یہ تجویز یوں ہی التوا میں پڑی ہوئی ہے۔