امن وانسانیت کی ہم آہنگی کے لئےمسرت آمیز سفر کنڑا روزنامہ کراولی منجاؤ میں بھٹکل کے وسنت دیواڑیگا کی خصوصی رپورٹ

Source: S.O. News Service | By Abu Aisha | Published on 16th September 2016, 3:29 PM | مہمان اداریہ |

’’جماعت اسلامی ہند کی طرف سے منائی گئی ’’امن وانسانیت ‘‘مہم کے ییش نظر اترکنڑا ضلع کے کنڑا روزنامہ ’’کراولی منجاؤ‘‘کے 29 اگست 2016 کوتین صفحات پر مشتمل مہم کے متعلق سپلمنٹ شائع ہواتھا ، جس میں بھٹکل کے مشہور و معروف کنڑا کالم نگار وسنت دیواڑیگا نے جو مضمون لکھا تھا اس کا ترجمہ ساحل آن لائن قارئین کے لئے پیش کیا جارہاہے‘‘۔

دھماکوں  میں مگن افق ، اپنی   گڑگڑاہٹ سے منہ کھولتی زمین ،بحالی کو برباد ی میں منتقل کرتی طوفانی ہوائیں بھی کسی ایک سہارے کے ذریعے اپنا وجود باقی رکھتے ہوئے خیال کرتی ہونگی کہ ہمارا کام ایسا تو نہیں ۔پونم کا چاند بھی ہمیشہ کے لئے  وسیع سمندرپر نہیں رہتا، سنگھر ش یعنی تصادم  کی آخری حد پر بھی امن و شانتی کی امید کو بچائے  رکھنا فطرت کا اصول ہے۔  امن کے جو خواہش مند نہیں وہ  سب برباد ہوجاتاہے ، اسی کو کچھ لوگ بھگوان کا اصول کہتے ہیں۔ جینے کی خواہش  میں بھلائی برائی کی تمیز کئے بغیر ہنگامہ خیزی، ظلم و ستم، فساد ، حملوں کے درمیان پھنساانسان  ،خون خوار ی سے اپنا بچاؤ کرنے والے  جانوروں جیسی فطرت میں شامل ہونے کا خطرہ درپیش ہے، ایسےسنگین حالات میں بھی انسانی  زندگی میں امن کی امید و تمنا پیدا کرنا میرے خیال میں بھگوان کا کام (عبادت) ہی ہے۔

روشنی کا مینارہ نور سورج کی بھی ایک عمر ہے لیکن بڑی مشکل سے 60-70کی زندگی جینے والے انسان میں تشدد اورجھگڑے کی چاہت اس میں تکبر پیدا کرتی ہے۔جو اپنی حدوں کا شعور نہ  رکھتے ہوئے ظلم کے لئے آگے بڑھتا ہے تو وہ  بد امنی کی طرف چلا جاتا ہے۔آج خوشی ، مسرت، آرام ، سکھ جیسے الفاظ کی کوئی معنویت نہیں رہی، دوسروں کی موت پر خوشی سے ناچنے والے درندوں کی  صفت انسانی  معاشرہ میں بھی در آئی ہے۔ واٹس اپ، فیس بک پرپوسٹ ہونے والے  پیغامات  تلوار، چھری چاقو پر اکساتے ہیں،  معاشی، سیاسی فائدے کی خاطر عوام  کو تقسیم کرنے کے لئے جی جان کی کوششیں ہورہی ہیں،  ذات پات، دھرم ، پارٹی، پارٹیوں کے مستقبل کے لئے میڈیا جنم لے رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ہمیں آپس میں ایک دوسرے کو اپنا کر ، مان کر ، ایک دوسرے کا سہارا بن کر کھڑے ہوناتھا عین اسی وقت  کچھ لوگ غیر ہوتے جارہے ہیں۔ مسلسل نفرت و دشمنی کے ذریعے اپنی تشہیر چاہنے والی ذلیل حرکتیں جاری ہیں، خاندان، ذات، دھرم ، دیش پریم کا لہجہ بدل کر اس کاغلط استعمال ہورہا ہے، غذا اور لباس کےمتعلق بے شعوری کے آندولن بربادی کی طرف جارہے ہیں،  جس کے نتیجے میں دنیا کا  اشرف المخلوقات ، ارذل المخلوقات ہوتا جارہاہے۔ سوامی وویکانند کا عالمی انسان غائب ہے، دنیا بھر میں جنگ، ظلم وبربریت کا دور دورہ ہے۔ عراق، سیریا، لبیا، پاکستان ، افغانستان ، مصرجیسے مسلم ممالک  سمیت دنیا کے 150سے زائد ملکوں  میں جاری تشدد   انسانوں کی ہلاکت کے لئے انسان ہی اہم وجہ بنا ہواہے۔لیکن یہ سب جشن کوپہنچنے والا نہیں ہے کیونکہ انہیں  گروہ، نسل، ذات، دھرم وغیرہ کے نام کی حمایت جو ہے۔طنزیہ جملے کس کر  بھائی چارگی اور ملنساری کی بات کرنے والے  ادیبوں کوخاموش کرنے والے ظلم کی کوئی شباہت نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہورہاہے کہ تکثریت کے لئے مشہور بھارت کوبدل کر خطرے کی طرف  دعوت دی جارہی ہے۔

ملک کے موجودہ حالات میں عدم رواداری کی وجوہات تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تعجب کی بات یہ ہےکہ تاریخ کو تاریخ کی نظر سے دیکھے بغیر اپنی من چاہی اور فائدے  کی بنیاد پر صحیح اور غلط کو مسخ کرکے  نئی تاریخ لکھنے کی کوشش بھی تیزی سے جاری ہے۔ اب بادشاہت کو مذہب کی عینک لگائی جارہی ہے،  وقت کی حکمرانی کی مخالفت کرتے ہوئے مشکلات میں پھنسنے والوں کو آج مذہب کے نام پر معصومیت اور دیش پریمی کا خطا ب عطا کیا گیاہے، وہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ پرانے بادشاہ کے نام سے مشہور  سڑک کا نام بدل کر بدلہ لیاجارہاہے۔ جائیدادکے لئے اس وقت مندروں کو لوٹے مسلم بادشاہوں کو آج ہندو مذہب کے مخالف کے طورپر پیش کیا جارہاہے۔ کیا  اورنگ زیب نے مسجد پر حملہ نہیں کیا؟ کیاحالیہ دور میں بھی مندروں، چرچوں، مسجدوں میں ہونے والی چوریوں کی وجہ مذہب مخالف  ہے؟مراٹھا کے راجا شیواجی کے سپہ سالاروں میں 12سپہ سالار مسلمان ہونے کا زور دار بھاشن کہیں سننے میں نہیں آتا۔ شیواجی مہاراج کوبیجاپور کے افضل خان سے بچانے اور اس کو قتل کرنے کی تدبیر بتانے والا شیواجی کا باڈی گارڈ مسلمان ’’رستم ‘‘ ہو، یا اس کے بعد شیواجی کو قتل کرنے افضل خان کے سکیورٹی کرشنا بھاسکر کلکرنی کے حملے کو پیش کرنے والے بہت ہی کم ہیں۔  انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہونے والے جنوبی ہندوستان کےتنہا سلطان ٹیپو سلطان کی فوج میں سپہ سالار کیاہندو نہیں تھے؟ بادشاہوں اور راجاؤں کی حکمرانی والے ملک کی باتیں ، انگریزوں کی آمد کے بعد کیا اپنی آپ بدل گئیں؟ ہم میں بھارت کا تصور کب سے پیدا ہوا؟

1857میں ہندو مسلمان تمام مل کر انگریزوں کے خلاف زبردست حملہ کیا تو انگریزوں نے ہماری متحدہ طاقت کو توڑنے کے لئے  ہندو ،مسلم کی سازش رچی ، پاکستان بنا، اس کے بعد آج تک وہی ذہنیت جاری و ساری ہے۔ جو آزادی ہمیں ملی تھی اس کا  غلط استعمال ہورہاہے، ہم ایک ہی ملک کے شہری ہونے کے باوجود مختلف رنگ ، رسم و رواج ، فکررکھتے ہیں ،لیکن ہم اتنے گرگئے ہیں کہ جو ہمارے گروہ کا نہیں ہے اس کی تذلیل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ، جانوروں کے چمڑے سے تیار ہونےو الے بیلٹ، پرس، اس سے زیادہ یہاں سے رفت ہونے والے گائے کے گوشت کے متعلق کوئی سوچتا نہیں ہے، کوئی متبادل طریقہ نہیں بتاتا، ہاں ، یہ سب کئے  بغیر اترپردیش کے دادری میں جانوروں کا گوشت کھانے کے لئے گھر  میں جمع رکھنے کی وجہ سے مارمار کر قتل کیاجاتاہے ،پھر اس قتل پر خوشی منانا بد تہذیبی اور بربریت نہیں تو  اور کیا ہے؟ افسوس  و بیزارگی کی بات یہ ہے کہ پڑوسی ضلع اڈپی میں جانور سپلائی معاملے میں قتل ہوگیا ، حید رآباد میں دلت طالب علم ویمولا نے خود کشی کی ،یہاں ویمولا کے  موت کی وجوہات تلاش کرنے سے زیادہ ویمولاکی ذات کی تصدیق کے لئے کارروائی ہوتی ہے اور ایسی  رذیل حرکتوں کو انجام دینے والوں کو شاہی عزت دی جارہی  ہے تو سمجھ لیجئے کہ ہم کس دیش میں رہتےہیں؟ایک سیاسی پارٹی کے اصولوں کی مخالفت کرنے والے کنہیا کمار کو ملک غدار کہا جاتاہے ، گجرات میں مردہ جانور وں کے چمڑے نکالنے والے دلتوں پر حملہ کیا جاتاہے، وہیں یہ بھی سچ ہے کہ  مندرجہ بالا 3-4واقعات کو لے کریہ کہہ نہیں سکتے کہ  ملک مکمل طورپر بدل گیا ہے۔ لیکن انہی واقعات کا ملک بھر میں ڈھنڈورا پیٹ کرحمایت کی جاتی ہے، سوشیل نیٹ ورک پر پھیلا کر ، خوشی منائی جاتی ہے تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک بدل رہاہے ۔ پاکستان کے فوجی حکمران ، وہاں کی دہشت گرد تنظیمیں ، وہاں کی بد نظمی کو دور رکھتے کر سرحد پارکر کے وہاں کی انسانیت سے متاثر ہوکر وہ بھی  ہمارے جیسے ہونےکا بیان دیا جاتاہے تو کیا وہ ملک غداری ہے؟َ ہمارا پڑوسی شرابی ، قاتل کیوں نہ ہو ، کیا اس کی نسل سے بھلائی کی امید نہیں کی جاسکتی ؟ہمارے  ذہن، انسانیت کس طرف جارہے ہیں ؟

یہ بھی صحیح ہےکہ ہمارے پڑوسی  ممالک میں ہمارے ہاں سے زیادہ ظلم و بربریت ہے ، مسلسل دھماکے ، قتل و غار ت گری کی وجہ سے پوری زمین لال ہوگئی ہے۔ موجودہ آئسیس کے نام پر جاری قتل و غارت گری عالمی سطح پر تشہیر پارہی  ہیں، بھارت سے بھی کچھ لوگ آئیسیس کی طرف رجحان رکھنے کی بات کہی جاتی ہے۔ قانون کے مطابق گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں، لیکن مذہب کی بنیاد پر بقیہ لوگوں کو بھی ان سے زبردستی  تعلق بتانا،بھارت جیسے  جمہوری ملک  میں صحیح نہیں کہہ سکتے۔ بھارت میں بھی مذہب وغیرہ کی تفریق کئے بغیر بموں کو بنانے کی مثالیں ہیں، دھماکے ہوئے ہیں، سیکڑوں معصوم لوگ ہلاک ہوئے ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ دھماکوں کے بعد ہونے والی دشمنی ، تشدد کی مشکلات میں گھرے ، گھروغیرہ کو کھو نے والے ، زخمی ہوکر اسپتال میں داخل ہونے والے  ، جان گنوانے والے گنتی میں آتے ہی نہیں۔ حالیہ برسوں میں تبدیلی مذہب کا معاملہ بھی بہت زوروں سے پیش کیا جاتاہے۔ لوجہاد جیسی نئی نئی اصلاحات  کو جنم دیا گیا ہے۔ یہاں بھی ایک پرانے راجا کاتذکرہ کرتے ہوئے دوسرے مذہب کو ذلیل کیا جاتاہے۔ اس معاملے میں ہمیں سوامی وویکانند ، دستور کو تشکیل دینےو الے امبیڈکرکی باتوں کوسننے کی کسی میں  شایدسکت  نہیں ہے۔ مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی کو ہوا دے کر سماجی عدم مساوات ، چھوت چھات کو چھپانے کی سازش آخر کتنے دنوں تک چلے گی؟ بیتے ہوئے  واقعات میں تاریخ، تہذیب، ملک ، سیاست وغیرہ   کوگھیسٹ  کر  طویل عرصےکے نتائج کو چاہنے والوں کی تعدادمیں اضافہ ہورہاہے۔ حیوانیت سے انسانیت کی طرف، بد امنی سے امن کی طرف سفرکرنا دشوار ہوگیا ہے۔

بدلتے ہوئے ملک میں امن کی کوششیں، ہم آہنگی کی جدوجہد ایک ناٹک لگتا ہے، لنگی پہن کر ، سرپر ٹوپی ڈال کر مسجد پہنچ کر مسلمانوں کے درمیان بیٹھنے سے مسلمان دوست کہلانے ، پیشانی پر تلک لگا کر مندرجانے سے ہندو پریمی ہونے ، چرچ میں جاکر فادر سے معانقہ کرکے  عیسائی بھائی کا خطاب لینے کی فکر میں آج بھی بہت سارےوقت گزار رہے ہیں۔ ملک کے کسی بھی فرد کی شخصیت سے ، من چاہے مذہب سے ، دوسرے دھرم والوں سے محبت کرنا کیا ممکن نہیں ہے؟مذہبی پیشوا کا لباس پہنے عالمی انسان وویکانند کو ایک ہی مذہب تک محدود رکھنا تنگ نظری ہوگی۔ وویکانند کی طرف سے پیش کردہ اعلیٰ مذہب میں دنیا کے تمام مذاہب کو شامل کرنے والی فکر ہے یا نہیں ؟اس کو چھوڑکر وویکانند کی تصویر کے ساتھ اپنی تصویر شائع کرکے فولڈر تقسیم کرنا، سڑک کنارے کٹ آؤٹ لگانا ایک وہم کی علامت کے سوا کچھ نہیں ۔ میں باربارسوامی وویکانند کا رخ  اس لئے کرتاہوں کہ ان کےانسانی شعور کو ہم جانیں۔ سوامی وویکا نند اور  گورکشھا والوں کے درمیان ہوئی گفتگو سے پتہ چلتاہے کہ سوامی وویکانند کے انسانی شعور کا نظریہ کیا تھا۔   اس مکالمے کو کوئمپو نے درج کیا ہے ایک مرتبہ مطالعہ کریں، اپنے پاس پہنچے گورکشھا والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے سوامی جی نے پوچھا ’’ تمہارے سنگھ کا کیا مقصد ہے؟‘‘۔ اس کا پرچارکوں نے جواب دیا کہ ’’ بوڑھی ، بیمار گوماتاؤں کو قصائیوں سے بچاکر گوشالہ لے جانا مناسب ہے نا‘‘

’’بہترہے، تمہاری معاشی امداد کیسے ہوگی ‘‘؟۔              ’’ تمہارے جیسے مخیر حضرات کھلے دل سے مدد کریں گے‘‘۔

’’تمہارے پاس اب کتنی رقم ہے‘‘۔                       مارواڑیوں سے ہمیں اچھی رقم ملی ہے‘‘۔

ملک کے وسطی ریاستوں میں بھیانک قحط پڑاہواہے نا؟ سرکاری بیانات کے مطابق 8،00،000عوام برگال سے متاثر ہوکر ہلاک ہوئے ہیں، وہاں کے عوام کے لئے تم نے کیا ہے؟

ہم قحط، برگال ، ورگال کےجھمیلے میں نہیں پڑتے ، ہمارا کام صرف گائے کی حفاظت ہے۔

ایک ایسے وقت جب  لاکھوں لوگ ، ہم مذہب، ہمارے ملک کے بھوکے  ہلاک ہورہے  ہیں،کیا تمہیں ان لوگوں کو  ایک وقت کھانے کا انتظام کرنا  بھی نہیں سوجھا ؟                          اس کے لئے ہم کیا کریں؟ وہ ان کاعمل ہے، ان کے گناہ ہیں، برگال پڑاہے۔

ان باتوں کو سننے کے بعد سوامی جی آگ بگولہ ہوگئے ، آنکھیں  سرخ ہوگئیں ، بجلی کی طرح گرجتے ہوئے بولے ، ’’اہوں، اگر ایسا ہے تو  میں تمہارے سنگھ کے معاملے میں آتا ہی نہیں ، جومصیبت زدہ بھائیوں کے لئے درد محسوس نہیں کرتا ، جو اپنی آنکھوں کےسامنے ہی بھوک سے مرتاہوا دیکھ کر ایک لقمہ بھی دان نہیں کرتا، بوڑھی بیمار جانوروں  کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کرتاہے ایسوں  کو میں نہیں مانتا۔ ان کا عمل ، ان کا گناہ کہا جاتاہے ، کیا ہے یہ ! ایسا کہنے میں تمہیں شرم نہیں آئی ۔ اگر وہ ان کے عمل کی سزا ہے تو تمہار ا بھی ایسا ہی ہے! تم کیوں گائے کی حفاظت کرو؟ قصائیوں کے ہاتھ سے ذبح ہونا وہ ان کا عمل ،اتناسمجھ کر خاموش رہنا چاہئے۔

پرچارک پریشان ہوگئے ’’ ہاں تمہار ا کہنا صحیح ہے، ، لیکن ہمارے شاستر گائے کو ماتا کہتے ہیں نا! ، پوچھ لیا۔

سوامی جی نے کھل کر ہنستے ہوئے کہا’’ ہاں! ہاں !وہ بے شک ، جانور ہی تمہاری ماں۔! اگر ایسا نہیں تو پھر تمہارے جیسے باصلاحیت بچوں کو کون جنم دیتا؟‘‘۔ جب پرچارک وہاں سے چلے گئے تو وہاں موجود لوگوں سے کہا’’دیکھئے! ہمارے ملک میں عمل کا اصول کیسے استعمال ہورہاہے؟ اسی لئے ہمارے دیش نے اتنی ترقی کی ہے،اور کہا   ۔ایو، انسان ہوکر انسانوں کے لئے درد بانٹنے والے ؟ دکھ ، درد ، مایوسی سے سوامی جی کانپ گئے۔

حالیہ دنوں میں گائے کی حفاظت کے لئے انسانوں کو مارنے، ظلم کرنے ، پھر  انسان کو قتل کرنے کی حد تک ہمارا ملک پہنچ چکاہے، سوامی وویکانند کی باتیں پھر ایک بار ملک کے لئے بازگشت بن سکتی ہیں،میں اس موقع پر  امن و انسانیت کے بہترین سفر کے لئے جماعت اسلامی ہند کا آگے بڑھنا گویا ان دگرگوں حالات میں بھی دنیا کے تمام انسان کو ایک بنا کر ، انسانی پیدا ئش کے کوئی معنی ہونے کی  امید کرتاہوں۔

                                                    ترجمہ :عبدالرؤوف سونور۔ اردو لکچرر، انجمن پی یو کالج، بھٹکل

ایک نظر اس پر بھی

کارپوریٹ گھرانوں اور ہندوتوا کا ’سازشی گٹھ جوڑ‘، مودی حکومت میں ’کھیل‘ کے سبھی اصول منہدم!

فاشسٹ عناصر ہمارے جدید سماج میں رہتے ہیں، لیکن عموماً وہ بہت ہی چھوٹے طبقہ کے طور پر حاشیے پر پڑے رہتے ہیں۔ وہ مین اسٹریم میں تبھی آ پاتے ہیں جب انھیں اجارہ داری والی پونجی کی مدد ملے کیونکہ اسی سے ان عناصر کو اچھا خاصہ پیسہ اور میڈیا کوریج مل پاتا ہے۔ یہ مدد کب ملتی ہے؟ تب، جب ...

مسلم تھنک ٹینک: قوم مسلم کی ایک اہم ترین ضرورت ۔۔۔ از: سیف الرحمن

آج جب کہ پوری دنیا و اقوام عالم ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں اور پوری دنیا میں آگے بڑھنے کی مقابلہ آرائی جاری ہے جِس میں ہمارا مُلک ہندوستان بھی شامل ہے ، تو وہیں ملک کر اندر بھی موجود الگ الگ طبقات میں یہ دوڑ دیکھنے کو مل رہی ہے

عالمی کپ فٹبال میں ارجنٹینا کی شاندار جیت پر ہندی روزنامہ ہندوستان کا اداریہ

کھیلوں کے ایک سب سے مہنگے مقابلے کا اختتام ارجینٹینا  کی جیت کے ساتھ ہونا بہت خوش آئندہ اور باعث تحریک ہے۔ عام طور پر فٹبال کے میدان میں یوروپی ملکوں کا دبدبہ دیکھا گیا ہے لیکن بیس برس بعد ایک جنوبی امریکی ملک کی جیت حقیقت میں فٹبال کی جیت ہے۔

ہر معاملے میں دوہرا معیار ملک کے لیے خطرناک ۔۔۔۔ منصف (حیدرآباد) کا اداریہ

سپریم کورٹ کے حالیہ متنازعہ فیصلے کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کی سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ۔ مرکزی ایجنسی نے منی لانڈرنگ کیس میں ینگ انڈیا کے  دفاتر کو مہر بند کردیا۔  دہلی  پولیس نے کانگریس کے ہیڈ کوارٹرس کو عملاً  پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ راہول اور ...

نوپور تنازع: آخر مسلمان جوابی غلطیاں کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔۔تحریر:قمر وحید نقوی

دو ہفتے بعد نوپور شرما کے تبصرے کے تنازع پر ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے نے جس غصے کا اظہار کیا ہے وہ بالکل مضحکہ خیز اور سیاسی حماقت کا ثبوت ہے۔ اتنے دنوں بعد ان کا غصہ کیوں بھڑکا؟ کیا ان کے پاس اس سوال کا کوئی منطقی جواب ہے؟

تقسیم کی  کوششوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی و خیرسگالی پر زوردینا ضروری : ملک کے موجودہ حالات پر کنڑا روزنامہ ’پرجاوانی ‘ کا اداریہ

ملک کے مختلف مقامات پر عبادت گاہوں کے متعلق جو  تنازعات پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں و ہ دراصل سماجی اور سیاسی تقسیم کا مقصد رکھتی ہیں۔ ایسی کوششوں کے پیچھے معاشرے میں ہنگامہ خیزی پیدا کرنے کامقصدکارفرما ہےتو ملک کے سکیولرنظام کو کمزور کرنے کا مقصد بھی اس میں شامل ہے۔